Maktaba Wahhabi

95 - 222
اس سانحے کے تھوڑے ہی عرصے بعد مختار ثقفی اٹھا اور بظاہر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا انتقام لینے کی خاطر ایک لشکر جرار لے کر کوفے پر چڑھ دوڑا اور عبید اللہ بن زیاد کا محاصرہ کرلیا۔ عبید اللہ نے ہتھیار ڈال دیے مگر وہ پھر بھی قتل ہوگیا۔ اس کا سر بھی اسی قلعے میں مختار ثقفی کے سامنے رکھا گیا۔ اس واقعے کو گزرے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ مصعب بن زبیر (حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بھائی) کا لشکر مختار ثقفی کو سزا دینے آپہنچا۔ اس کا سر بھی کاٹ کر مصعب بن زبیر کے سامنے کوفے کے قلعے میں رکھا گیا۔ بعدازاں عبد الملک بن مروان نے ایک لشکر جرار روانہ کیا جس نے مصعب بن زبیر کو گھیر لیا۔ بالآخر لشکر کا سپہ سالار مصعب کا سرکاٹنے میں کامیاب ہوگیا اور عبد الملک بن مروان کے سامنے لا رکھا۔ معاملہ اس حد تک پہنچ کر رکا نہیں بلکہ ابومسلم خراسانی کی قیادت میں پھریرے لہراتے ہوئے اور ٹھاٹھیں مارتے لشکر اموی خاندان کی حکومت کی بساط لپیٹنے اور سلطنت عباسیہ کا اعلان کرنے آدھمکے۔ حملہ آور کامیاب ہو گئے مگر اس کے ساتھ ہی کئی شہر برباد ہوگئے۔ لاکھوں مسلمان صفحۂ ہستی سے مٹادیے گئے اور ہزاروں ادھر ادھر تتربتر ہوگئے۔ اصل حقیقت جس کا مسلمانوں کی نئی نسل کو بھی ادراک ہونا چاہیے یہ ہے کہ ایک حکومت گراکر اس کی جگہ دوسری حکومت قائم کرنا کوئی اتنا اہم کام نہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو برباد ہونے اور اسے اندر سے کھوکھلا اور شکست خوردہ ہونے سے
Flag Counter