Maktaba Wahhabi

94 - 222
میں رہنا ہی بہتر ہے، نیز میرے اور مسلمانوں کے درمیان سمندر یا پانی حائل نہیں ہونا چاہیے، لہٰذا تم کسی کھلے علاقے، یعنی دیہات وغیرہ میں رہنے کو ترجیح دو۔ ابن بقیلہ، سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: کیا میں ایسی زمین کی نشان دہی نہ کروں جو جنگل یا صحرا سے ہٹ کر اور خراب زمین سے بلند ہو؟ سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں، بتاؤ وہ کونسی جگہ ہے۔ تب ابن بقیلہ نے کوفہ کی جگہ کی نشان دہی کی۔[1] تاریخ میں مذکورہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے قلعے کی سنگ بنیاد رکھتے ہوئے دعا کی تھی: ’’اے اللہ! اس قلعے کو مسلمانوں کی دشمن سے حفاظت کا ذریعہ بنا۔‘‘ یہ یاد رہے کہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، چنانچہ باہر سے کوئی بھی حملہ آور دشمن یہاں گھسنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ عمارت تا دیر قائم رہی۔ کوفہ کے قلعے کے قائم و محفوظ رہنے کے باوجود مسلمانوں کی باہمی بہت شدید لڑائیاں ہوتی رہیں۔ مسلمان ایک ایسی اندھیری رات میں داخل ہوچکے تھے جو ختم ہونے والی نہیں تھی، نیز وہ ایسے ہلاکت خیز معرکوں میں جاگھسے تھے جنھوں نے مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ ان فتنہ پرور معرکوں میں اسلام اور مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا تھا۔ جب زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کوفہ میں جابسے تھے، اس وقت کی مسلمانوں میں جاری لڑائیوں کی سنگینی کی تصویر کھینچتے ہوئے بعض مؤرخین لکھتے ہیں: لوگوں نے کوفے کے قلعے میں عبید اللہ بن زیاد کے سامنے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سر رکھاہوا دیکھا جسے ابن زیاد چھڑی سے ٹھوکے دے رہا تھا۔
Flag Counter