Maktaba Wahhabi

62 - 121
دیگر اساتذہ کرام کے تجربات سے استفادہ کرنے سے کسی استاد کی قدرو قیمت اور جلالت شان میں کمی واقعی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ اس استاد کے اخلاص اور تواضع پر دلیل ہے۔ سلف صالحین نے حصول علم کے لیے اس میدان میں بڑی شاندار روایات قائم کی ہیں، جن سے کتب سیرۃ بھری پڑی ہیں۔ کیا سیّدنا عمر بن خطاب، سیّدنا عبداللہ بن عباس سے سوال نہیں کیا کرتے تھے؟ حالانکہ وہ ان سے افضل تھے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا: ((أشیرو علیّ أیہا الناس۔)) ’’لوگو! مجھے مشورہ دیا کرو۔‘‘ کیا سیّدہ ام سلمہ نے حدیبہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ آپ خود نکلیں اور اپنا حلق کروائیں۔؟ مشورہ کرنا شرعی تقاضا ہے، اور مشورہ کرنے والا کبھی پشیمان نہیں ہوتا۔ ٭ اس استفادہ کی کیفیت درج ذیل امور میں مخفی ہے: ٭ اپنے سے زیادہ تجربہ کار لوگوں سے سوال کرنا۔ جیسے اداء کی سطح کو بلند کرنے کے بارے میں پوچھنا۔ ٭ مختلف حلقات کی زیارت کرنا اور ان کے مفید نقاط کو اپنے حلقہ میں نافذ کرنے کی کوشش کرنا۔ ٭ مختلف اداروں میں کروائے جانے والے تربیتی کورسز سے استفادہ کرنا۔ ٭ اپنے سے زیادہ بڑے عالم کو قرآن مجید سنانا۔ ٭ معلمین، خصوصاً ماہر اساتذہ کا اپنے علم کو نہ چھپانا، بلکہ دوسروں کو اپنے تجربات سے بہرہ ور کرنا۔ {لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ} (آل عمران: 187) ’’تم اسے ضرور لوگوں کے لیے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔‘‘
Flag Counter