Maktaba Wahhabi

38 - 121
موجود تھے، جن میں سے ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بئر معونہ پر مظلومانہ حالت میں شہید کر دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا مصعب بن عمیر سیّدنا عبداللہ بن مکتوم اور ان کے ساتھ دیگر دس صحابہ کرام، جن میں سے عبداللہ بن معقل المزنی قابل ذکر ہیں، کو مدینہ منورہ روانہ کیا۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیّدنا ، سیّدنا عبادۃ بن صاعت اور سیّدنا ابو داؤد کو شام روانہ کیا۔ 4۔ امصار اسلامیہ میں تعلیم قرآنی کا فروغ: آخر کار تمام اسلامی شہروں میں منظر حلقات قرآنیہ معرض وجود میں آ گئے اور نئے مسلمان ہونے والے لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین عظام سے بطریق تلقی ومشافہت قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔ ان دنوں قرآن مجید کی قرأت وتفسیر کے اہتمام کے لحاظ سے کوفہ اور مدینہ منورہ تمام اسلامی شہروں سے زیادہ مشہور تھے۔ سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کی آواز ایسے تھی جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے۔ کوئی بستی اور کوئی شہر ایسا نہ تھا جن کی حقیقی تعداد صرف اللہ ہی جانتا ہے… جہاں قرآن مجید کی تعلیم نہ دی جا رہی ہو۔ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قلم سے مصاحف نسخ کیے گئے، اور سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تعلیم قرآن کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر شہر کے لیے ایک ایک مقریٔ متعین کر دیا اور ان کے ساتھ ایک ایک قرآن مجید کا نسخہ بھی روانہ فرما دیا۔ آپ نے سیّدنا ابو عبدالرحمن سلمی رحمۃ اللہ علیہ کو کوفہ روانہ کیا، جہاں انہوں نے 70 سال تک مسند تدریس کو جلوہ افروز رکھا۔ اس کے بعد متعدد مدارس قرآنیہ معرض وجود میں آئے، جیسے مدرسہ رشائبہ چوتھی صدی ہجری میں اور مدرسہ وجیہہ ساتویں صدی ہجری میں قائم ہوا۔ ٭…٭…٭
Flag Counter