Maktaba Wahhabi

100 - 121
اہداف کا حصول ممکن ہے۔ انسان جب کتاب اللہ کو غور وفکر اور دقت نظر سے دیکھتا ہے تو اسے طرق تدریس کے قواعد عامہ پر مشتمل پاتا ہے۔ دوسری مبحث میں ہم انہی قواعد کو مجملاً بیان کریں گے۔ دوسري مبحث: طرق تدریس کے قواعد 1۔ متعلّم کی رعایت: تدریس کے عمل میں متعلّم کی رعایت رکھی جائے اور سبق کو ان کے اذہان کے قریب تر کرنے کی کوشش کی جائے، ان پر نہ تو اتنا بوجھ ڈالا جائے، جیسے وہ اٹھانے کی سکت نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی اتنا کم سبق دیاجائے کہ وہ بلامشقت اس سے زیادہ کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ ہر طالب علم کو اس کے فہم اور ذہنی سطح کے مطابق مخاطب کیا جائے، سمجھدار کے لیے اشارے پر اکتفاء کیا جائے، جو نہ سمجھے والوں کو اس کی وضاحت کرے اور تکرار سے سمجھائے۔ 2۔ معلم کو طلباء کی صلاحیتوں اور ادراک کی معرفت: معلم کے لیے طلباء کی صلاحیتوں اور ادراکات کی معرفت حاصل کرنا از حد ضروری امر ہے۔ جو معلم اپنے طلاب کی دقیق معرفت رکھتا ہے، وہی ان کے لیے مناسب طریقہ اختیار کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ معلم انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ تھے، اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أرحم أمتی بأمتی أبو بکر، وأشدہم فی أمراللّٰہ عمر، وأصدقہم حیلۃ عثمان، وأقرأہم لکتاب اللّٰہ أبی، وأفرضہم زید بن ثابت، وأعلمہم بالجلال والحرام معاذ بن جبل، ولکل أمۃ أمین وأمین ہذہ الأمۃ أبو عبیدہ عامر بن جراح۔)) ’’میری امت میں سے میرے سب سے رحمدل ابو بکر ہیں، اور
Flag Counter