مقدمہ
اللہ رب العزت ہم سب کا خالق و مالک ہے اور اس نے ہماری تخلیق صرف اپنی عبادت کے لیے کی ہے۔ اسی مقصد تخلیق کی وضاحت کے لیے اس نے انبیاء و رُسل کی بعثت کا تسلسل قائم کیا اور ان نفوسِ قدسیہ کو اپنے دِین کی تبلیغ و ترویج کے لیے یکے بعد دیگرے مبعوث کرتا رہا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللّٰه وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾ [النحل: ۳۶]
’’اور یقینا ہم نے ہر اُمت میں رسول بھیجا کہ (لوگو!) صرف اللہ کی عبادت کرو اور معبودانِ باطلہ سے اجتناب کرو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی۔ سو تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘
لہٰذا انبیاء و رُسل نے اس ذِمہ داری کو نبھانے کے لیے اپنے لیل و نہار کو وقف کر دیا اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے دستورِ حیات کی قولی و عملی طور پر خوب وضاحتیں کیں، اور یہ وہی دستورِحیات ہے جس کا تذکرہ قرآن میں یوں ہوا ہے:
﴿إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ ﴾ [آل عمران: ۱۹]
’’یقینا اللہ کے ہاں دِین، اسلام ہی ہے۔‘‘
اور یہ وہی دین ہے جو صرف آخری پیغمبر کا نہیں بلکہ تمام پیغمبروں کا مشترکہ دین ہے، جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
|