ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا۔‘‘ اور دین کا مذاق اڑانے والوں سے دور رہنا بھی واجب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِہَافَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ﴾ (النساء:۱۴۰) ’’وہ اپنی کتاب میں یہ حکم پہلے نازل کرچکا ہے کہ جب تم سنو کہ آیات الہیہ کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو وہاں ان کے ساتھ مت بیٹھو تاآنکہ یہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں، ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہوجاؤ گے۔‘‘ اور یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان اپنی خواہشات کی اتباع نہ کرے۔فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیِّ وَّ لَانَصِیْرٍ﴾(البقرۃ:۱۲۰) ’’اور اگر آپ علم آ جانے کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کو اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی یا مددگار نہ ہوگا۔‘‘ حق بات اور اہل حق(سلفیوں)کی نصرت کرنا اور کفار کی طرف کسی قسم کا میلان نہ رکھنااور ان کی مدد سے ہاتھ کھینچنا بھی ضروری ہوجاتا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ﴾(ھود:۱۱۳) ’’ان لوگوں کی طرف نہ جھکنا جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں بھی آگ آلپٹے گی۔‘‘ پس ان کے ساتھ بود باش رکھناان کی اطاعت گزاری کرنا ان کی تائید کرنااور مسلمانوں کے دستور و قانون قرآن کریم کو چھوڑ کر ان کے قوانین اور دساتیر کے مطابق اپنے جھگڑوں کے فیصلے کروانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ مومنین کے راستہ کی اتباع کرنا ان سے محبت رکھنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت اور موالات رکھنااورقومیت وطن پرستی لسانیت قبیلہ پرستی کو پس |