واضح طور پر اس کا اطاعت گزار پاتے۔ ‘‘ طاغوت کا انکار کرنا ایمان باللہ کے اظہار سے پہلے ضروری ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی جگہ میں کوئی چیز داخل کرنے کے لیے اس جگہ کا اس کی مخالف اشیا سے پاک کیا جانا بہت ضروری شرط ہے۔ جس طرح دو محسوس اور مجسم مخالف چیزیں ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتیں۔ ایسے ہی دو مخالف قسم کے عقائد اور ارادے بھی ایک جگہ پر جمع نہیں ہوسکتے۔ جب دل باطل عقیدہ اور اس کی محبت سے بھرا ہوا ہو تو اس میں حق عقیدہ اور اس کی محبت کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾(البقرۃ:۲۵۶) ’’اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ ایمان پر لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقہ کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں: ﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗٓ ﴾(الممتحنۃ:۴) ’’تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہاکہ:’’ہم تم سے قطعی بیزار ہیں اور ان سے بھی جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو؛ ہم تمہارے دین کے منکر ہیں؛ اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بیر پیدا ہوچکا تاآنکہ تم اللہ اکیلے پر ایمان لے آؤ‘۔ |