اس نسبت کا کوئی ایسا خاکہ یا خدوخال نہیں جو اسے کتاب و سنت کے مقتضی سے نکال باہر کرے۔ یہ نسبت ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی نسل اول سے ٹوٹی نہیں۔ بلکہ یہ نسبت ان سے ہی شروع ہوتی ہے اور ان کی طرف ہی لوٹ کر جاتی ہے۔ رہ گئے وہ لوگ جو نام یا کام اور خدو خال کے اعتبار سے اس کے مخالف ہیں تو ان پر اس اصطلاح کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ بھلے وہ سلف کا زمانہ پا چکا ہو اور ان کے ساتھ وقت گزار چکا ہو۔‘‘ (حکم الانتما ص:۳۶) مملکت سعودی عرب اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے ایک سلفی مملکت ہے۔ اور ان کی دعوت سلفی دعوت ہے۔ امام عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ نے فرمایا تھا:’’ بیشک میں ایک سلفی آدمی ہوں۔ میرا عقیدہ سلفی عقیدہ ہے جس کے مقتضی کی روشنی میں میں کتاب و سنت پر چلتا ہوں۔‘‘ اور اسی تقریر کے دوران آپ نے یہ بھی فرمایا: ’’لوگ ہمیں وہابی کہتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سلفی ہیں۔ اپنے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے ہیں۔ ہمارے اور مسلمانوں کے مابین ایک مشترک چیز ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘ آپ کے بارے میں محدث علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ عمدۃ التفسیر کے مقدمہ۱؍۷ پر فرماتے ہیں : ’’امام اہل السنۃ محی مذہب السلف اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کے محرک اولین ....‘‘ پھر بادشاہ و امراء اس مبارک ملک میں اسی منہج پر چلتے رہے۔ اور ایسے ہی خادم الحرمین الشریفین ملک عبداللہ بن عبد العزیز اور ولی عہد امیر سلمان اور ان کے اعوان و اخوان(مدد گار و انصار)ہمیشہ اس ملک میں علی الاعلان کہتے رہے ہیں کہ وہ سلفی ہیں اور سلفیت ہی امام محمد بن عبد الوہاب اور امام محمد بن سعود رحمہما اللہ کے دور سے اس ملک کا مختار مذہب ہے۔ |