Maktaba Wahhabi

25 - 71
بم دھماکہ‘‘ کو خاص شہرت حاصل ہے،بالخصوص مسلم عرب ممالک میں اس کا رواج اس قدر عام ہے کہ رروزانہ میڈیا کے ذریعے خودکش حملہ بم دھماکہ کی سرخیوں کے ساتھ خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں،قتل نفس کا یہ وحشیانہ و سفاکانہ طریقہء کار خودکشی کے ساتھ دوسرے عظیم مظالم و جرائم کو بھی مستلزم ہوتا ہے،اس لیے کہ خودکش حملہ بم دھماکہ میں حملہ آور خود اپنی جان کا خاتمہ کرتے ہوئے دوسرے مسلمانوں اور بے قصور انسانوں کی عمومی جانی و مالی تباہی کا مجرم بنتا ہے،اور ان گنت خون ناحق کے گناہوں کا انبار اس کی گردن پر ہوتا ہے،یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ جب شخصی خود کشی کا انجام یہ ہے کہ اس کا مرتکب نار جہنم میں اسی اسلحہ و طریقہ سے اپنی جان ہمیشہ مارتا رہے گا جس سے دنیا میں اپنی جان ہلاک کی ہوگی،تو خودکش حملہ آور کی چند درچند سزاؤں کا کیا عالم ہوگا؟ خودکش حملہ کو جہاد کا نام دینا،دنیائے اسلام کے ساتھ کھلواڑ اور اس کو بدنام کرنے کی بدترین تدبیر یا کوشش ہے،دین و اسلام جو احترام انسانیت کا پیغامبر ہے،اس نے مجاہد فی سبیل اللہ کی خودکشی کو بھی حرام قرار دیتے ہوئے اس کے جہنمی ہونے کی وعید سنائی ہے،اور ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کی گردن مارنے کو کفر اور ارتداد جیسا فعل بتایا ہے۔ چنانچہ سعد بن سہل ساعدی کا بیان ہے کہ جنگ خیبر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے لشکر کے ساتھ مشرکین(یہود خیبر)سے مڈبھیڑ ہوئی،دونوں طرف کے لشکریوں نے جنگ کی،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چھاؤنی کی طرف واپس ہوئے،اور یہودی بھی اپنے لشکری ڈیرے میں لوٹ آئے،مسلما ن لشکریوں میں ایک ایسا زبردست جاں باز مجاہد تھا کہ مشرکوں کا کوئی بھی آدمی کہیں بھی مل جاتا اس کا پیچھا کرکے اسے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑتا،حالانکہ اس سخت لڑائی لڑنے میں وہ بہت زیادہ زخمی بھی ہوا،صحابہ میں ذکر ہوا کہ فلاں شخص
Flag Counter