Maktaba Wahhabi

78 - 71
سانپ سانپ: ایک زمیندار گھرانے کی صاحب حیثیت ماں باپ کی اکلوتی اولاد کو وراثت میں بہت بڑی جائیداد،ڈھیروں سونا اور نقد روپے ملے،روپیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اسے سخت کوفت ہوتی،اگر کوئی خاتون اسے مسجد،مدرسہ وغیرہ بنوانے یا کسی یتیم اور بیوہ کو مدد کرنے کا کہتی تو اس کا چہرہ مکدر ہوجاتا،میں نے آخری بار اسے ۱۹۶۸ء میں بستر مرگ پر بے ہوشی کی حالت میں سول ہسپتال لاہور کے انتہائی نگہداشت(I.C.U)وارڈ میں دیکھا،اس کی نبضیں ڈوب چکی تھیں،سانس رک رک کر وقفوں وقفوں سے آرہی تھی،آنکھیں پتھرا چکی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب قریب کھڑے تھے،تاکہ اس کی موت کا سرٹیفیکیٹ دے کر رخصت ہوں،اچانک اس کے بدن نے حرکت شروع کردی،اس کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہوئے،رونگٹے کھڑے ہوگئے،جسم سے پسینہ بہ نکلا،اس کے ہونٹ ہلنے لگے،سب لوگوں نے سنا کہ وہ تھرائی ہوئی آواز میں ’’سانپ سانپ‘‘ کہہ کر اس سے بچنے کے انداز میں ہاتھ پاؤں ہلا رہی تھی،میں یہ مشاہدہ کرکے خوف زدہ ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ’’طبی نقطۂ نظر سے آپ اس کی آخری حرکت کو کیا نام دیں گے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’میرے لیے یہ مشاہدہ کسی طبی معجزے سے کم نہیں،یہ حرکت اور سانپ سانپ کی آوازیں بلاشبہہ ایک میت کے منہ سے نکلی ہیں،اس گہری بے ہوشی کے عالم میں وہ بول سکتی تھی نہ حرکت کرسکتی تھی۔[1]
Flag Counter