Maktaba Wahhabi

21 - 71
لو ‘‘[1] یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس طریقہ عمل سے امت کو تنبیہ فرمائی ہے قرض داری کی حالت میں وفات پاجانا اس لائق ہے کہ ایسے میت پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے،البتہ اگر کوئی شخص اس کا قرض ادا کرنے کا ذمہ لے لے تو نماز جنازہ پڑھنے سے احتراز کی وجہ ختم ہوجائے گی،اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مستطیع قرض دار میت کے قرض کی ناادائیگی اس کے حسن خاتمہ کی علامت نہیں ہے۔ واضح رہے کہ قرض کا معاملہ مختلف الجہات اور متنوع پہلو دار ہے،قرض کا معاملہ صرف نقد رقم تک محدود نہیں ہے،بلکہ اس کا دائرۂ عمل عبادات اور حقوق ومعاملات تک پھیلا ہوا ہے،اگر عبادات کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی کی جائے تو یہ اللہ کا حق مارنے کے مثل ہے،اور جس طرح مالی قرض اور حق کی ادائیگی مقروض میت کے اولیاء وورثاء پر واجب ہے،اسی طرح اگر میت نے اپنی زندگی میں کسی نیک کام کی نذر مانی تھی اور اس پورا کرنے کی نوبت نہ آسکی،تو یہ بھی میت پر دین اور اللہ کا حق ہے،اس کی گلوخلاصی کے لیے اولیاء وورثاء پر یہ قرض اور حق ادا کرنا ضروری ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا:’’میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی،مگر وہ مرگئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر اس بہن پر کوئی قرض ہوتا تو تم ادا کرتے؟ اس نے کہا:کیوں نہیں،آپ نے فرمایا:حج تو اللہ کا حق ہے،اس کو ادا کرو،اس لیے اللہ کے حق کی ادائیگی تمام ادائیگیوں سے اولیٰ اور مقدم ہے۔‘‘[2]
Flag Counter