Maktaba Wahhabi

20 - 71
شخص کا(قرض ادا کرنے میں)ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ میت کے ذمہ قرض ایسا گناہ ہے کہ بغیر ادائیگی یا قرض دینے والے سے معافی تلافی کے بغیر بخشش نہیں ہوگی،قرض داری کے گناہ عظیم ہونے کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ’’جو مجاہد فی سبیل اللہ مقتول ہوکر شہید ہوجائے،تو یہ شہادت کی موت اس کے تمام گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے،اس کی ساری خطائیں معاف ہوجاتی ہیں،لیکن اس کے ذمہ قرض ہے تو معاف نہیں ہوگا۔‘‘[1] شہید کا مرتبہ اس قدر بلند ہوتے ہوئے جب اس کے ذمہ قرض کی بخشش نہیں ہوتی تو دوسرے قرض داروں کو اپنے انجام پر غور وفکر کرنا چاہیے،چاہے قرض نقد رقم کی صورت میں ہو،یا سامان وجائداد یا کسی کا حق مارنے دبانے سے متعلق ہو،یا ملازم و مزدور کی مزدوری وغیرہ سے تعلق رکھتا ہو،بہرحال بخشش معلق رہے گی،تاوقتیکہ قرض کی ادائیگی یا رفع دفع سے مسئلہ حل نہ ہو جائے۔ قرض دار میت کے تعلق سے مذکورہ بالا احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی تنبیہات کے علاوہ عملی تنبیہ کا سلسلہ بھی رہا کرتا تھا،اس کی ایک کڑی یہ ہے کہ مقروض میت کی صلاۃ جنازہ سے اجتناب واحتراز فرماتے تھے،چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی قرض دار میت نماز جنازہ کے لیے لایا جاتا تو دریافت فرماتے،’’کیا اس نے اتنی پونجی چھوڑی ہے کہ اس پر جو قرض ہے ادا ہوسکے؟‘‘ اگر بتایا جاتا کہ اتنا کچھ ہے کہ قرض ادا ہوسکتا ہے،تب آپ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھتے پڑھاتے،ورنہ معذرت کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرماتے کہ تم لوگ پڑھ
Flag Counter