Maktaba Wahhabi

89 - 131
نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی مذاہب رہتے ہیں قائم صرف ایمان جاتا ہے اس لیے ایسی تہذیب پٹخ کر قرآن و سنت کو سینے سے لگانا چاہیے۔ جیسا کہ اقبال نے کہا تھا : اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے لیکن افسوس اس پڑھے لکھے طبقے پر ہے جو نہ تو بے پردگی کو اچھا خیال کرتا ہے نہ اس کو وی سی آر اور ڈش کی بیماری ہے۔ ان کو شیطان نے اپنے علم کی جدت میں گمراہ کر رکھا ہے کہ علم کو پھیلاؤ خواہ مرد و زن کے اختلاط سے ہی کیوں نہ ہو اور زمانے کی روایات کے ساتھ ساتھ اسلام کو بدلنا چاہیے اور گھر فارغ رہ کر تو زندگی بسر نہیں ہو سکتی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اے میرے وہ صحابی جو یہ سوال کر رہا ہے کہ نجات کس میں ہے تو نجات اس میں ہے کہ ((أَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلیٰ خَطِیْئَتِکَ۔))[1] ’’اپنی زبان کو کنٹرول کرو اور اپنے گھر میں بیٹھے رہو (یعنی تمہیں اپنا گھر اچھا لگے) اور اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو گھر میں بیٹھنے کا کہیں اور جدت کے مارے دیندار اور من مانی کا دین چاہنے والے دنیا کی ہوس اور پیسے کے جمع کرنے کا شوق رکھنے والے اور {یَعْلَمُوْنَ ظَاہِرًا مِّنَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ عَنِ اْلاٰخِرَۃِ ہُمْ غٰفِلُوْنَ} (الروم:۷) ’’وہ تو صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو ہی جانتے ہیں اور آخرت سے تو بالکل بے خبر ہیں۔‘‘ کہتے ہیں کہ علم و عرفان کی پروان گھر سے نکل کر مردوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھانے میں ہے پردے کے اندر کوئی حرج نہیں ہاں حرج نہیں ہو گا دین میں حرج ہے
Flag Counter