Maktaba Wahhabi

121 - 131
پتہ چلتا کہ اس کے رخسار سیاہی مائل ہیں اس لیے چہرہ کا پردہ نہیں۔ استدلال کا رد : ۱: اس حدیث میں جس عورت کا ذکر کیا گیا ہے اس کے لیے الفاظ ہیں:سفلۃ النساء۔‘‘ عورتوں میں سے ادنیٰ درجے کی عورت کیونکہ سفلۃ القوم کا لفظ عربی زبان میں قوم میں ادنیٰ درجے کے لوگ کو کہا جاتا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ ادنیٰ درجہ کی عورت تھی یعنی لونڈی تھی تو لونڈی پر پردہ ہے ہی نہیں جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے : ((قَالَ لِاَمَۃٍ رَآہَا مُنْتَقِبَۃٌ اِکْشِفِی رَاْسَکِ وَلَا تُشَبِّہِیْ بِالْحَرَائِرِ وَضَرَبَہَا بِالدُّرَّۃِ۔)) ’’لونڈی کو پردے کیے ہوئے دیکھا تو اس کو درے سے مارا اور کہا کہ اپنا سر ننگا رکھ یعنی پردہ نہ کر اور نہ ہی آزاد عورتوں کی مشابہت کر۔‘‘ کیونکہ پردہ کرنا آزاد عورت کا شعار ہے اور لونڈی پردہ نہیں کرتی،[1] اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کو صحیح کہا ہے تو معلوم ہوا کہ اس پر پردہ کرنا ضروری ہی نہیں تھا۔ دوسری بات جو کہ اس کو لونڈی ثابت کرنے میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کو چہرے کا پتہ چلا کہ وہ سیاہی مائل رخسار والی ہے (جس سے یار لوگ چہرے کے عدم پردہ پر دلیل بناتے ہیں) تو بتلائیں ان کو یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ ادنیٰ درجے کی عورت ہے؟ ظاہر ہے لونڈی تھی تو اس کی وضع کا اعتبار کیا یا وہ پہچانی ہوئی تھی۔ اگر وہ لونڈی نہیں تھی اور آزاد تھی تو بتلائیں صحابی کو اس عورت کی علامات کے بارے میں کھوج لگانا اور پہچان لینا یہ کس بات پر دلالت کرتا ہے؟ کہ وہ اس کو جانتے تھے تو پھر اس رشتے کو حدیث میں ذکر کیوں نہیں کیا اگر رشتہ دار بھی نہیں تھی تو کیا نعوذ باللّٰه تمہارا ایمان اس کی اجازت دیتا ہے کہ صحابی کی رشتہ دار بھی نہ ہو اور لونڈی بھی نہ ہو پھر اس کے اتنے گہرے اوصاف کے بارے میں جانتے ہوں جو کہ ایک غلط مفہوم واضح کرے۔
Flag Counter