Maktaba Wahhabi

110 - 131
حکم ۵ہجری سے قبل کا ہے اور پردہ ذوالقعدہ ۵ہجری کو نازل ہوا تو پردہ ناسخ ہوا بے پردگی کا۔ ۲: دلیل جو ذکر کی جاتی ہے وہ غیر صریح ہے جو کہ قاطع دلیلوں کے مقابلہ میں لا یعنی قوت رکھتی ہے۔ ۳: وہ دلیل اس لائق ہی نہیں کہ اس کو حجت بنایا جائے کیونکہ یہ غیر صحیح دلیل صحیح و صریح نصوص سے متعارض ہے۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ یا تو کوئی دلیل صحیح ہے ہی نہیں اگر ہے تو یا تو منسوخ ہے یا پھر پردے والے دلائل میں ایک نیا حکم ہے اور مستقل حکم ہے اور بے پردگی عام معمول تھا تو پردے کے نزول کے بعد یہ نیا حکم ہو تو اصولی قاعدے کے مطابق عام حالات کے خلاف اگر کوئی دلیل ہو تو اسے ترجیح دی جاتی ہے اب جو پردہ کو ثابت کریں قرآن و سنت کے دلائل بھی ہوں اور ایک نفی کرے اور دلائل بھی نہ ہوں تو ایک تو دلائل کا اعتبار ہو گا دوسرا مثبت (ثابت کرنے والے) کو نافی (نفی کرنے والے) پر مقدم کیا جاتا ہے۔ تو آئیے ان دلائل کا جائزہ لیں: قرآن کریم سے دلائل : ۱:ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا} (النور:۳۱) ’’عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔‘‘ تو {اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا} کی تفسیر سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یوں منقول ہے کہ ’’وَجْہَہَا وَکَفَّیْہَا وَالْخَاتَمَ‘‘ یعنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر عورت اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں اور انگوٹھی ظاہر کر سکتی ہے جس کا مدعا یہ سامنے آیا کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ نہیں اور انگوٹھی بھی ہاتھ میں پہنی جاتی ہے۔
Flag Counter