Maktaba Wahhabi

119 - 131
کھلا تھا اور پردہ کا حکم نہیں دیا جس سے معلوم ہوا کہ چہرے کا پردہ نہیں ہے۔ استدلال کا رد : اس میں چہرہ کے پردہ کے نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں وہ اس طرح کہ یہ عورت حالت احرام میں تھی اور احرام میں عورت کے بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جب غیر محرموں میں سے اسے کوئی نہ دیکھ رہا ہو تو چہرہ کھلا رکھے نقاب نہ کرے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لاَ تَنْتَقِبِ الْمَرْأَۃُ الْمُحْرِمَۃُ۔)) [1] ’’کہ محرمہ احرام والی عورت نقاب نہ کرے۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ چونکہ احرام کی حالت میں تھی اس لیے چہرہ کا پردہ ضروری نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کس حدیث میں ہے کہ اس کا چہرہ ننگا تھا؟ بلکہ صرف فضل نے دیکھا تو اس پر اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ یہ الفاظ ہیں : ((فوضع یدہ علی وجہ الفضل۔)) ’’فضل کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہوں نے دوسری جانب چہرہ کر لیا‘‘ اور ((حَوَّلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَدَہُ اِلٰی الشَقِّ الْآخَرِ۔)) ’’اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ہاتھ کو دوسری جانب کر لیا۔‘‘ یعنی فضل کو دیکھنے سے منع کیا بلکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! ((لِمَ لَوَّیْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ۔)) ’’آپ نے اپنے چچا کے بیٹے کی گردن کو کیوں موڑا۔‘‘ تو جواب دیا کہ : ((رَأَیْتُ شَابًّا وَشَابَّۃً فَلَمْ آمَنِ الشَّیْطٰنَ عَلَیْہَا۔)) [2] ’’میں نے ایک نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا (یعنی فضل کو اس کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا) تو میں نے اس میں امن نہیں پایا کہ شیطان ان کو ورغلا سکتا ہے۔‘‘ تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (جیسا کہ بعض روایات میں ہے فضل کا چہرہ ڈھانپ دیا اور اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافعل زبانی منع کرنے سے زیادہ تاکید والا ہے جیسا کہ قاضی عیاض نے اس کی طرف اشارہ کیا
Flag Counter