Maktaba Wahhabi

74 - 131
ڈھانپنا ممکن ہو جاتا ہے جس کو گھر میں بھی ننگا کرنے کی عادت عام ہو چکی ہے۔ تو اس خمار کو لینے کی شرط یہ ہے کہ وہ اتنا باریک نہ ہو کہ اس کے نیچے سے بال اور چہرہ اور گردن اور سینہ اور زیورات کی جگہ نظر آئے۔ ام علقمہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر ' کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں ان پر باریک خمار تھا جس سے ان کی پیشانی ظاہر ہو رہی تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس پر سختی سے کہا ((اَمَا تَعْلَمِیْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْ سُوْرَۃِ النُّوْرِ؟)) ’’کیا تو نہیں جانتی کہ سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے پردہ نازل کیا ہے؟‘‘ اور پھر موٹا خمار منگوا کر ان کو پہنایا۔[1] 2۔الجلباب : یہ قمیص یا چادر کو کہتے ہیں اس کی جمع جلابیب ہے تو گویا یہ ایک ایسی موٹی چادر ہوتی ہے کہ جو عورت کے سر سے لے کر قدموں تک تمام بدن کو اور ان کپڑوں اور زینت کو چھپادیتی ہے جو عورت نے پہنے ہوتے ہیں۔ اس کو الملاء ۃ اور المحلفۃ اور الرداء اور الدثار اور الکساء بھی کہتے ہیں اور اسی کا نام ہی العباء ۃ ہے جو کہ جزیرۃ العرب کی عورتیں پہنتی ہیں اور اس کو اس طرح پہنا جاتا ہے کہ اس کو سر پر رکھ کر خمار کے اوپر سے تمام بدن اور اس کی زینت کو قدموں تک ڈھانپ لیتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس عباء ۃ کا مقصد عورت کے تمام بدن و زینت کو چھپانا ہے تو وہ پردہ جو ہر عورت پر شرعی طور پر فرض ہے اس کے لیے خواہ وہ چادر استعمال کرے یا برقعہ‘ اس میں آٹھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ پردے کی شرط : بلاشبہ پاک و ہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں موجود نہیں تھیں کیونکہ اس دور میں معاشرت اور رہن سہن و بود و باش بالکل سادہ تھی‘ عورتیں انتہائی سادہ لباس پہنتی تھیں۔ بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کے اظہار کا
Flag Counter