صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا کی ایسی غلاظتوں سے پاک تھے اس لیے خلاصہ یہ نکلا کہ وہ لونڈی ہی تھی جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ ۲: ممکن ہے کہ یہ واقعہ پردے کے وجوب سے پہلے کا ہو کیونکہ سورۂ احزاب میں پردے کا حکم ذوالقعدہ ۵ ہجری میں نازل ہوا اور عید کی نماز ۲ ہجری سے فرض ہو چکی تھی اور یہ واقعہ ۵ ہجری سے پہلے کا ہو تو پھر منہ کا ننگا ہونا دلیل ہی نہیں بن سکتا کیونکہ ۵ ہجری سے پہلے تو پردہ فرض ہی نہیں تھا۔ ۳: اس عورت کا یہ وصف بیان نہیں کیا گیا کہ وہ جوان تھی یا بوڑھی اگر وہ بوڑھی تھی وہ بوڑھی عورتیں جن کو نکاح سے کوئی سروکار نہ ہو ان کے لیے چہرہ کھولنا جائز ہے جیسا کہ {وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَائِ} قرآنی آیت واضح کرتی ہے پھر بھی اس سے جو بوڑھی عورتیں نہیں ان سے پردے کا وجوب ختم نہیں ہوتا اور بلاشبہ یہ بوڑھی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سب کے سامنے سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منجھی ہوئی پکی عمر والی عورت ہو سکتی ہے نوجوان یا تو حیاء کرتی ہے اور سوال نہیں کرتی یا پھر اس میں اتنا اعتماد کہاں کہ اتنے مجمع میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے۔ الغرض اس حدیث سے چہرے کا پردہ غیر واجب نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ پردے کا وجوب اسی طرح ثابت ہے جس طرح قرآن و سنت کے دلائل و براہین اس کو واضح کرتے ہیں ہاں اگر تعصب اور جدل اور ڈھیٹ پن اور جہالت کی چادر اوڑھ لیں تو پھر احادیث کا معنی بھی صحیح نظر اور سمجھ نہیں آئے گا۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے: کَمْ مِنْ عَائِبٍ قَوْلًا صَحِیْحًا وَ آفَتُہٗ مِنَ الْفَھْمِ السَّقِیْمِ ’’کتنے ہی لوگ صحیح بات کو عیب دار کر دیتے ہیں لیکن مصیبت ان کے غلط فہم کی |