Maktaba Wahhabi

77 - 98
علامت ہے، لہٰذا اسے فرضِ عین کا درجہ حاصل ہے۔ وائے ناکامی کہ لوگ اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے، جو کوئی ایسا کرے اس کے دل اور علم کو کوئی آزار لگ گیا ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’علم سیکھنے سے پہلے سچ بولنا سیکھو۔‘‘ امام وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’حصولِ علم میں صرف راست گو بلندی کی طرف پرواز کر سکتا ہے۔‘‘ اﷲ آپ پر رحم کرے! حصولِ علم سے پہلے راست گوئی سیکھو۔ راست گوئی کیا ہے؟ واقع اور اعتقاد کے مطابق کلام کرنا۔ سچائی کا ایک ہی راستہ ہے، اس کے برعکس جھوٹ کے بے شمار رنگ، مسالک اور راستے ہیں جنھیں تین قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 1 خوشامدی کا جھوٹ: واقع اور اعتقاد کے سراسر خلاف ہوتا ہے، مثلاً: خوشامدی جانتا ہے کہ فلاں شخص فاسق اور بدعتی ہے، مگر وہ اسے صاحبِ استقامت مومن کی حیثیت سے بیان کرتا ہے۔ 2 منافق کا جھوٹ: اعتقاد کے خلاف اور واقع کے موافق جیسا کہ منافق باتیں تو وہی کرے گا جو اہلِ سنت و ہدایت کرتے ہیں، مگر ان پر اعتقاد نہیں رکھے گا۔ 3 کند ذہن کا جھوٹ: خلافِ واقع اور موافقِ اعتقاد جیسا کوئی بدعتی صوفی میں صالحیت کا یہ اعتقاد رکھے کہ اُسے ولی اﷲ کہہ دے۔ جادۂ صدق و صفا پر گامزن رہو، اظہارِ حق میں زبان بندی سے مجتنب اور لب کشائی پر آمادہ۔ آپ کا منہ نہ کھلے مگر اُن الفاظ کی ادائیگی کے لیے جو باطن میں آپ کے سچے احساس کے آئینہ دار ہوں، جیسے محبت و نفرت کے احساسات۔ یا ظاہر ہیں آپ کے وہ احساسات جو حواسِ خمسہ (سننا، دیکھنا، سونگھنا، چکھنا اور چھونا) کی
Flag Counter