Maktaba Wahhabi

34 - 98
حصہ ہے۔[1] امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی وصیت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھو جو ان کے مشہور مکتوب میں درج ہے کہ عیش و تنعّم اور عجمی لباس سے بچو۔ جفاکشی اختیار کرو اور بہ تکلف سخت زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو۔[2] موجودہ تہذیب و تمدن کی موہومیت ( Unreality ) یعنی جھوٹی چمک سے دامن کش رہو، کیوں کہ یہ طبیعتوں میں نسوانی خصائل پیدا کر دیتی ہے۔ یہ اعصاب کو ڈھیلا کر کے تمھیں اوہام میں ایسا جکڑ دے گی کہ اپنے اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے والے تو منزل پر پہنچ جائیں گے اور تم اپنے لباس کی نفاست میں مشغول اپنی جگہ پر جوں کے توں کھڑے رہو گے، اگرچہ اس لباس میں موجود چمک دمک کوئی حرام یا مکروہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی ایسا زرق برق لباس زیبِ تن کرنا یہ کوئی اچھی خصلت نہیں ہے۔ بظاہر زیور بھی لباس کی طرح کسی شخص کی نسبت بلکہ اس کے تعارف کا عنوان ہے۔ کیا لباس اظہارِ ذات کے وسائل میں سے ایک وسیلے کے سوا بھی کچھ ہے؟ لباس کے معاملے میں محتاط رہو، کیوں کہ دوسرے لوگ تمھاری قدر و قیمت متعین کرنے میں تمھاری نسبت، تمھارے وجود اور تمھارے ذوق کو زیرِ غور لائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ ظاہری زیور یا پہناوا باطنی میلان کا پتا دیتا ہے۔ لوگ آپ کے لباس سے اندازہ لگاتے ہیں کہ آپ کس قسم کے آدمی ہیں، بلکہ لباس کی کیفیت کسی دیکھنے والے کو صاحبِ لباس کی شخصیت کا تعین مندرجہ ذیل پہلوؤں سے کرنے کا موقع دیتی ہے: 1 ہوش مندی اور عقل مندی۔ 2 بزرگ بننے کی خواہش یا راہبوں کا طریقہ اختیار کرنے کا جذبہ۔
Flag Counter