Maktaba Wahhabi

32 - 98
’’طالب علم کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ مندرجہ ذیل امور سے اجتناب کرے: لہو و لعب، فضول کاری، مجالس میں ناشائستہ حرکات، کم عقلی دکھانا، قہقہے لگانا، نادر و شاذ چیزوں کا بہت زیادہ بیان کرنا، طنز و مزاح سے اس قدر زیادہ کام لینا کہ وہ عادت بن جائے۔ تھوڑے سے مزاح کی البتہ اجازت دی جا سکتی ہے جو دلچسپ اور نادر ہو۔ طریقِ علم اور حدِ ادب سے باہر نہ ہو۔ وہ مزاح جو شتر بے مہار، فحش، کم عقلی کا مظہر، غصے کو بڑھکانے والا اور شر انگیز ہو، قابلِ مذمت ہے۔ زیادہ ہنسی مذاق سے قدر گھٹتی ہے اور مروء ت برقرار نہیں رہتی۔‘‘[1] ایک مقولہ ہے کہ کسی شخص سے جو چیز زیادہ سرزد ہوتی ہے، وہ اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ اے طالب علم! کسی کے ساتھ مجلس ہو یا گفتگو، ان اخلاق سے گری ہوئی باتوں سے کنارہ کش رہو۔ جبکہ جاہل یہ سمجھتا ہے کہ مخاطب سے بے تکلف ہو جانا بے تعصبی اور فراخدلی ہے۔ احنف بن قیس فرمایا کرتے تھے: ’’ہماری مجالس کو عورتوں اور خور و نوش کے ذکر سے پاک رکھو۔ بے شک میں سخت ناپسند کرتا ہوں ایسے شخص کو جو ہر وقت شرم گاہ اور شکم پروری کی باتیں کرتا رہے۔‘‘[2] امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک قاضی کے نام اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے کسی ایسی خوبی سے اپنے آپ کو مزین کیا جو اس میں فی الواقع نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے اس کو عیب دار کر دیا۔‘‘[3]
Flag Counter