کاضائع کرنا ہے،جس کاسبب لاعلمی اور مسائل دریافت نہ کرنا ہے۔ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ ہرحال میں وقت پر نماز ادا کرے اور وہ اسے کفایت کرجائےگی۔(ان شاء اللہ تعالیٰ) اگرچہ اس مجبوری کی حالت میں وہ تیمم نہ کرسکا یا ناپاک کپڑے تبدیل نہ ہوسکے ہوں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو۔"[1] اگر کسی مریض نے(جوقبلہ کی طرف رخ نہیں کرسکتا)غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرلی تو اس کی نماز درست اور صحیح ہوگی۔ جس شخص نے نماز کی فرضیت واہمیت کا انکار کیے بغیر محض سستی اور کوتاہی سے نماز چھوڑدی تو اس نے(اہل علم کی صحیح رائے کے مطابق) کفر کا ارتکاب کیا۔اس بارے میں ایک دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بين العبد وبين الكفر ترك الصلاة" "آدمی اور اس کے کفر کے درمیان فرق،نماز کا چھوڑنا ہے۔"[2] جوشخص نماز کا تارک ہو،اس کے اس عمل کی عام تشہیر کرنی چاہیے حتیٰ کہ اس رسوائی سے شرمندہ ہوکر نمازادا کرنے لگے۔اگر وہ نماز ادا نہ کرے تو اسے سلام نہ کہا جائے،اس کی دعوت قبول نہ کی جائے حتیٰ کہ توبہ کرے اور نماز قائم کرے کیونکہ نماز دین کا ستون ہے اور یہی عمل مسلمان اور کافر کے درمیان فرق وامتیاز کرنے والا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص جب تک نماز ضائع کرتارہےگا،اس کا کوئی عمل بھی نفع مند اورمفید نہ ہوگا۔ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا کرتے ہیں۔ اذان اور اقامت کے احکام کتب احادیث میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں۔ان اوقات سے پہلے نماز ادا کرنا جائز نہیں۔چونکہ اکثر لوگوں کو نماز کا وقت ہوجانے کا علم نہیں ہوتا یاکسی کام میں اس قدر مشغول ہوتے ہیں کہ نماز کی طرف ان کی توجہ نہیں رہتی۔ان وجوہات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اذان کو مشروع فرمایا ہے۔تاکہ لوگوں کو نماز کےوقت کی اطلاع ہوجائے۔ |