کا اختیار ہے اور وہ مسافر شخص ہے یا ایسا مریض ہے جسے روزہ رکھنے میں مشقت تو ہے لیکن مرنے یا بیماری کے بڑھنے کا اسے ڈرنہیں۔ جس شخص نے کسی عذر کی بنا پرروزہ چھوڑ دیا، پھر دن کے کسی حصے میں اس کا عذر جاتا رہا ،مثلاً:دن کے کسی حصے میں مسافر سفر سے واپس آگیا یا حائضہ یا نفاس والی عورت دن کے کسی حصے میں پاک ہو گئی، کوئی کافر مسلمان ہو گیا، مجنون کو افاقہ ہوا یا بچہ بالغ ہو گیا، تو یہ تمام لوگ دن کے بقیہ حصے میں کھانے پینے سے رکے رہیں اور روزے کی قضا بھی دیں۔"[1]اسی طرح دن کے کسی حصے میں مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ آج تو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہے جو ہم نے (بوجہ مغالطہ ) نہیں رکھا تو یہ لوگ بقیہ دن کھانے پینے سے رکے رہیں اور اس دن کی قضا ماہ رمضان المبارک کے بعد دیں۔ روزے کے ابتدائی اور آخری وقت کا بیان اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۗ عَلِمَ اللّٰهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتَانُونَ أَنفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ " "تمہارے لیے روزے کی رات کو اپنی عورتوں کے ساتھ صحبت کرناحلال کر دیا گیا ہے ، وہ تمہارے لیے لباس ہیں اورتم ان کے لیے لباس ہو۔ اللہ نے جان لیا کہ بےشک تم اپنے آپ سےخیانت کرتے تھے، چنانچہ اس نے تم پر توجہ فرمائی اورتمہیں معاف کر دیا، اس لیے اب تم ان سے ہم بستری کر سکتے ہو اوراللہ نے تمہارے لیے جو لکھ رکھا ہے وہ تلاش کرو اورکھاؤ اور پیو حتی کہ تمہارے لیےصبح کی سفیدی دھاری کالی دھاری سے واضح (روشن) ہو جائے، پھر تم روزے کو رات تک پورا کرو۔" [2] امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک رخصت دی ہے، یعنی اس میں ابتدائے اسلام کا وہ ایک مشکل حکم ختم کر دیا گیا جس کی بنا پر روزہ افطار کر لینے کے بعد عشاء کی نماز یا اس سے پہلے |