لیکن یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ استنجا کا تعلق وضو سے ہر گز نہیں بلکہ استنجاء کا تعلق قضائے حاجت سے ہے، لہٰذا اسے وضو کے لیے نئے سرے سے استنجاء کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
میرے بھائی !ہمارا دین طہارت و نظافت کادین ہے، آپ حسن آداب اور اعلیٰ اخلاق سے آراستہ رہیے۔ ایک مسلمان کی جو احتیاج ہے اور جس میں اس کی اصلاح ہے،اس کے متلاشی رہیے ۔جس چیز میں مصلحت ہے اس میں غفلت نہ برتیے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دین میں استقامت دے، اعمال میں بصیرت بخشے، احکام شرعیہ میں اخلاص و عمل کی توفیق دے تاکہ ہمارا ہر عمل رب تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہو۔(آمین)
مسواک اور صفات فطرت کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"السواك مطهرة للفم، مرضاة للرب"
"مسواک منہ کی صفائی اور رب کی رضا کا ذریعہ ہے۔"[1]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: الْخِتَانُ، وَالاِسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ"
"پانچ صفات،فطرت کی صفات ہیں :ختنہ کرنا، زیر ناف بال اتارنا، ناخن تراشنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا اور مونچھیں کا ٹنا۔"[2]
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا:
"أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى" "مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔"[3]
مندرجہ بالا روایات اور اس مضمون کی دیگر روایات سے فقہائے کرام نے درج ذیل مسائل اخذ کیے ہیں:
|