کی طرف سے حج کر رہا ہوں جس نے مجھے حج کا خرچ دیا ہے ،یہی نیت کافی ہو گی۔ والدین وفات پا چکے ہوں یا زندہ ہوں لیکن حج کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں تو ان کے لیے حج کرنا مستحب ہے۔ اس میں والدہ کو مقدم رکھا جائے کیونکہ حسن سلوک کی وہ زیادہ حق دار ہے۔ حج کی فضلیت اور اس کی تیاری کرنا حج کی بہت زیادہ فضیلت اور اس کا بہت اجرو ثواب ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، وَالذَّهَبِ، وَالفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الجَنَّةُ" "حج اور عمرہ کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں تنگ دستی اور گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے ،سونے اور چاندی کے میل کو ختم اور صاف کر دیتی ہے ۔حج مبرور کا اجر جنت ہی ہے۔"[1] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! ہم جہاد کرنا افضل عمل سمجھتی ہیں تو کیا ہم جہاد کے لیے نہ نکلیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَكِنَّ أَفْضَلَ الْجِهَادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ " "تمہارے(عورتوں کے) لیے سب سے افضل جہاد حج مبرور ہے۔[2] واضح رہے"حج مبرور" سے مراد ایسا حج ہے جس میں کسی گناہ کے عمل کی آمیز ش نہ ہو ۔کتاب وسنت کے احکام کے مطابق ہو، نیز حج مبرورکو"حج مقبول " بھی کہا گیا ہے۔ جب کسی کا حج کے لیے جانے کا پختہ عزم وارادہ بن جائے تو وہ اولاًتمام معاصی سے توبہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق غصب کیے ہیں تو انھیں معذرت کے ساتھ واپس لوٹائے ،لوگوں کی امانتیں اور عاریتاً لی ہوئی اشیاء اور لیے ہوئے قرضے ادا کرے ۔کسی پر ظلم و زیادتی کی ہوتو اس سے معافی مانگے۔ کوئی وصیت کرنی ہو تو تحریری وصیت کر |