بلند آواز سے دعا کرنے کی بجائے آہستہ آواز میں دعا کرنا زیادہ مناسب اور بہتر ہے کیونکہ یہ انداز اخلاص اور خشوع وخضوع کے قریب تر اور ریاکاری سے دور تر ہے۔ بعض ممالک میں کئی حضرات نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں یا امام دعا کرتا ہے اور حاضرین ہاتھ اٹھا ئے ہوئے امام کے دعائیہ کلمات پر آمین ،آمین کہتے ہیں۔ یہ کام سراسر بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں کہ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھا کر بعد میں اس طرح دعا کی ہو۔ فجر میں نہ عصر میں اور نہ کسی اور نماز میں۔ اورنہ ائمہ کرام میں سے کسی نے اسے پسند کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:" جس نے نماز کے بعد اجتماعی دعا کے بارے میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی قول نقل کیا ہے وہ غلط فہمی کا شکار ہوا ہے۔"[1]ہمارے لیے تو اس چیز کی پابندی واجب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ" اور تمھیں جو کچھ رسول دے اسے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔"[2] اور فرمان الٰہی ہے: "لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا" "یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )میں عمدہ نمونہ (موجود)ہے۔ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے۔"[3] نفل نماز کا بیان اللہ کے بندو! تمہارے رب نے اپنے تقرب کے لیے فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نفل نماز کو بھی مشروع قرار دیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ اور طلب علم کے بعد نفل نماز اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے نفل نماز پر مداوت فرمائی ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم |