مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق مہاجرین اور انصار میں تقسیم کردیتے تھے۔ (5)۔مسلمانوں کے امیر پر لازم ہے کہ مسلمانوں کے ظاہری مال،یعنی جانور،غلہ اور پھل وغیرہ کی زکاۃ کی وصولی کے لیے اپنے نمائندے روانہ کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ مالِ زکاۃ کی ادائیگی میں سست لوگ سستی نہ کریں گے اور اگر کوئی وجوب زکاۃ سے ناواقف ہوگا تو اسے مسائل کا علم ہوجائے گا۔علاوہ ازیں اس میں لوگوں کے لیے سہولت ہے اور فرض کی ادائیگی میں ان کے ساتھ تعاون بھی ہے۔ (6)۔ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زکاۃ فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی میں جلدی کرے اور اس میں بلاوجہ تاخیر نہ کرے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے،البتہ ایک سال کی پیشگی زکاۃ ادا کردینا جائزہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے دوسال کی زکاۃ وصول کی تھی(اس میں ایک سال کی زکاۃ پیشگی تھی) ۔[1] جمہور علماء کے نزدیک پیشگی زکاۃ کی وصولی اس شرط پر ہے کہ جب وجوب کا سبب قائم ہوچکا ہو۔اس میں جانور،غلہ،سونا،چاندی اور سامان تجارت وغیرہ سب کی زکاۃ کا حکم یکساں ہے بشرطیکہ اسے نصاب زکاۃ اوراس کی ملکیت حاصل ہو۔پیشگی زکاۃ نہ لینا بہتر ہے تاکہ آدمی دائرہ اختلاف سے نکل جائے۔واللہ اعلم۔ زکاۃ کے مستحق اور غیر مستحق افراد کابیان قرآن مجید میں آٹھ مصارف زکاۃ بیان ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللّٰهِ ۗ وَاللّٰهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ" "زکاۃ تو صرف فقیروں اورمسکینوں اوران اہلکاروں کےلیے ہےجو اس (کی وصولی) پرمقرر ہیں اور ان کے لیے جن کی دلداری مقصود ہےاور گردنیں چھڑانے اور قرضہ داروں (کے قرض اتارنے ) کے لیے اور اللہ کی راہ میں اورمسافروں ( کی مدد) میں ، (یہ ) اللہ کی طرف سے فرض ہے اوراللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے ۔"[2] |