پرایک بکری زکاۃ ہے۔پہلی صورت میں جس کی ایک بکری ہے اس کے ذمے بکری کا چالیس واں حصہ ہے ۔جب کہ دوسرے شخص کے ذمے ایک بکری کے انتالیس حصے ہیں۔دوسری مثال میں ہرایک کے ذمے بکری کاچالیسواں حصہ زکاۃ ہے۔ (9)۔اگر تین اشخاص کی ایک سوبیس بکریاں اسی طرح ہوں کہ ہرایک کی چالیس بکریاں ہیں تو مجموعی طور پر انھیں ایک بکری زکاۃ دیناہوگی ،اس طرح ہرایک ایک تہائی بکری زکاۃ پڑے گی۔ جس طرح اشتراک مؤثر ہے ،اسی طرح امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تفریق بھی مؤثر ہے،مثلاً:ایک شخص کی جنگل میں چرنے والی بکریاں دو جگہ الگ الگ رہتی اور چرتی ہو اور دونوں ریوڑوں میں اتنا فاصلہ ہوکر نماز قصر کرناجائز ہوجائے تو زکاۃ بھی الگ الگ ریوڑوں کے حساب سے دیناہوگی۔دونوں جگہوں کی بکریوں کو ملایا نہ جائے گا۔جس جگہ بکریاں نصاب زکاۃ تک پہنچ جائیں گی ان کی زکاۃ ہوگی۔ جمہور علماء کے قول کے مطابق ایک شخص کے مال میں تفریق مؤثر نہ ہوگی بلکہ الگ الگ مال کو جمع کیاجائے گا اور یہی قول راجح ہے۔واللہ اعلم۔ غلہ،پھل،شہد،معدنیات اورمدفون مال کی زکاۃ کابیان اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ " "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ان پاکیزہ میں سےخرچ کرو جو تم کماتے ہو او ران میں سے بھی جو ہم نےتمہارے لیےزمین میں سےنکالی ہیں اور مت ارادہ کرو( اللہ کی راہ میں ) ردی اورخراب چیز خرچ کرنے کا ، جب کہ تم ( خود) تو وہ (چیز) لینا بھی پسند نہیں کرتے، الا یہ کہ اس کی بابت تم چشم پوشی کر جاؤ جان لو کہ بےشک اللہ تعالیٰ بےپرواہ ہے ، قابل تعریف ہے۔ "[1] قرآن مجید میں زکاۃ کو"نفقہ"(خرچ کرنا) بھی کہا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: |