دیتا۔"[1] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ما صام من ظل يأكل لحوم الناس" "اس نے روزہ نہیں رکھا جو(غیبت کر کے) لوگوں کا گوشت کھاتا ہے۔"[2] لہٰذا جب روزے دار کے لیے ضروری ہے کہ روزے کی حالت میں ان اشیاء سے اجتناب کرے جو روزہ نہ رکھنے کی حالت میں جائز ہیں،(مثلاً: کھانا ،پینا ، یاجماع کرنا) جو اشیاء ہر حال میں حرام ہیں انھیں ترک کرنا بدرجہ اولی ضروری ہے تاکہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہو جو روزے کا پورا پورا حق ادا کرنے والے ہیں۔ روزے کی قضاکے احکام جس شخص نے شرعی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا یا توڑدیا یا کسی حرام کام، مثلاً:جماع وغیرہ کے ارتکاب سے روزہ فاسد اور ضائع کر لیا تو اس پر قضا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ" "اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے۔"[3] قضا کی ادائیگی میں جلدی کرنا مستحب ہے تاکہ ذمے داری ختم ہو جائے، نیز قضا میں تسلسل قائم کرنا مستحب ہے کیونکہ قضا ادا کے مطابق ہوتی ہے۔ قضا کو فوراً ادا کرے،اگرفورا ادا نہیں کر سکا تو آئندہ ادا کرنے کا عزم بالجزم ہونا چاہیے۔ اگر پھر بھی کسی وجہ سے تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ روزے کی ادائیگی کے وقت میں خاصی وسعت ہے۔ جب واجب کی ادائیگی کے وقت میں وسعت و گنجائش ہوتو اس میں عزم کے باوجود تاخیر کرنا جائز ہے۔ اسی طرح اس کی قضا متفرق طور پر دینا بھی جائز ہے، البتہ اگر کسی نے سارا سال روزوں کی قضا نہ دی حتی کہ ماہ شعبان کے صرف اس قدر دن رہ گئے جس قدر اس پر قضا کے روزے تھے تو اب چونکہ وقت نہایت تنگ ہے، اس لیے اب تسلسل سے قضا دینا اس پر بالا تفاق لازم ہے۔ دوسرے رمضان کے بعد قضا جائز نہیں الایہ کہ کوئی خاص شرعی عذر ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: "كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلا فِي شَعْبَانَ" |