يؤدّي ذلك عنها ؟ قالت : نعم . قال : فصومي عن أمك . " "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت آئی اور کہا: میری ماں فوت ہوگئی ہے اور اس کے ذمے نذر کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے وہ روزے رکھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کردیتی تووہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟ تو اس عورت نے کہا: ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔"[1] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میت کی طرف سے نذر کے روزے رکھے جائیں۔ اصلی فرض روزے نہ رکھے جائیں۔ یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی منقول ہے، علاوہ ازیں دلیل وقیاس بھی اس کا مقتضی ہے کیونکہ شریعت کے کسی حکم سے نذر واجب نہ تھی بلکہ بندے نے خود ہی اپنے آپ پر ضروری قراردے لی جو فرض کا درجہ پاگئی، اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نذرکو قرض کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور روزے کو اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے فرض قرراردیا ہے جو اسلام کا ایک رکن ہے۔ اس میں کسی حال میں بھی نیابت کا دخل نہیں جس طرح کلمہ شہادت اور نماز میں نیابت درست نہیں بلکہ ان سے مقصود بندے کا خود اطاعت کرنا اور وہ حق عبادت ادا کرنا ہے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا اور اس کا حکم دیا ہے، لہٰذا اسے کسی دوسرے کی طرف سے نہ ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی طرف سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔" شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ یہ امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے اور یہی درست ہے۔ نذر کا ذمہ اس نے خود اٹھایا ہے، لہٰذا موت کے بعد اسے ولی ادا کرے، البتہ رمضان المبارک کے روزے عاجز اور معذور شخص پر فرض نہیں بلکہ عاجز کے لیے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ باقی رہی روزوں کی قضا تو وہ صرف قدرت والے شخص پر ہے عاجز پر نہیں، اس لیے عاجز کی موت کے بعد ولی پر قضا بھی نہیں ،ہاں ! نذر وغیرہ کے روزے احادیث صحیحہ کی روشنی میں بالا تفاق میت کی طرف سے رکھے جائیں۔" بڑھاپے اور بیماری میں روزے کے احکام اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ماہ رمضان کے روزے فرض قراردیے ہیں جو حضرات معذور نہیں وہ انھیں وقت پر |