البتہ اگر جماعت کے نکل جانے کا اندیشہ ہوتو پھر نفل نماز توڑ دے۔[1]کیونکہ فرض نماز کی اہمیت زیادہ ہے۔
جماعت کے دوران میں شامل ہونے والے کے احکام
اہل علم کے صحیح قول کے مطابق جو شخص نماز باجماعت کی ایک رکعت حاصل کر لے اس نے گویا مکمل نماز کا اجرو ثواب حاصل کر لیا۔ اگر اس نے ایک رکعت سے کم حصہ حاصل کیا تو اسے باجماعت نماز پڑھنے والا شمار نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اسے رکعت کا جتنا حصہ ملے اسے امام کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور اسے اس کی اچھی نیت کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جائے گا۔ جس طرح جماعت ختم کے بعد پہنچنے والے کو نیت کا ثواب مل جاتا ہے جیسا کہ مختلف احادیث کا مفہوم ہے:"جس نے نیکی کی نیت کر لی لیکن کسی وجہ سے اسے ادا نہ کر سکا تو اسے نیکی کا اجرمل جائے گا۔"
رکوع میں شامل ہونے سے رکعت حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"من أدرك الركوع فقد أدرك الركعة " "جس نے رکوع پالیا اس نے رکعت پالی۔"[2]
نیز صحیح بخاری میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ جب رکوع کی حالت میں جماعت کے ساتھ شامل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ رکعت دہرانے کا حکم نہیں دیا تھا۔[3]اس سے واضح ہوا کہ اس کی رکعت ہوگئی۔
|