ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت اور معرفت حق کی توفیق اور اس کا اتباع کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ بے شک وہی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔ جماعت سے پیچھے رہ جانے والے کا حکم جماعت سے پیچھے رہ جانے والا شخص جب اکیلا نماز ادا کرے تو اس کی دو حالتیں ہیں: 1۔کوئی شخص کسی مرض یا خوف کی وجہ سے معذور ہو بغیر عذر کے ترک جماعت اس کی عادت نہ ہو۔ ایسے شخص کو نماز باجماعت کا ثواب مل جائے گا،ان شاء اللہ۔کیونکہ صحیح حدیث میں ہے: "إِذَامَرِضَ الْعَبْدُ أَوْ سَافَرَ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ مَا كَانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا " "جب کوئی بندہ بیمار ہو یا سفر میں ہوتوجو اعمال تندرستی اور اقامت کی حالت میں کرتا تھا وہ سارے اعمال اس کے" اعمال نامہ" میں درج ہوں گے۔"[1] اسی طرح کسی شخص کا باجماعت نماز ادا کرنے کا پختہ ارادہ تھا لیکن کوئی شرعی عذر حائل ہو گیا تو اسے وہ پورا اجر اور مرتبہ مل جائے گا جو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے والوں کو حاصل ہوا کیونکہ اس کی نیت درست اور اچھی تھی۔ 2۔کوئی شخص بلا عذر شرعی باجماعت نماز سے پیچھے رہا ،جب وہ شخص اکیلا نماز ادا کرے گا تو جمہور کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہوگی، البتہ وہ بہت بڑے اجرو ثواب سے محروم ہو گا کیونکہ باجماعت نماز کی انفرادی نماز کی نسبت ستائیس درجے فضیلت ہے۔ نیز اسے مسجد کی طرف ایک ایک قدم بڑھانے کا جو ثواب تھا وہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس عظیم اجرو ثواب کے خسارے کے علاوہ وہ گناہ گار بھی ہے کیونکہ اس نے بلا عذر واجب کو ترک کیا ہے۔ وہ صاحب اختیار (ولي الامر) کی طرف سے تادیباً سزا کا حق دار ہے جب تک کہ وہ خیر و بھلائی کی طرف واپس نہ پلٹ آئے۔ باجماعت نماز کا مقام مسجد ہے۔ وہ اسلامی شعار کے اظہار کا مقام ہے۔ مساجد کی تعمیر کا یہی مقصد ہے، اگر کسی اور جگہ پر جماعت کی اقامت ہو تو یہ مساجد کی ویرانی کا باعث ہے جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللّٰهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ﴿٣٦﴾رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللّٰهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ |