"جنازہ لے جانے میں جلدی کرو اگر وہ (جان) نیک ہے تو تم اسے خیر کی طرف لے جارہے ہو۔(لہٰذا جلدی پہنچاؤ )اور اگر وہ(جان) ایسی نہیں، اس کا انجام براہے تو تم اپنی گردنوں سے اس کا بوجھ جلد ازجلد اتاردوگے۔"[1]
اس روایت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تم حد سے بڑھ کر تیز رفتاری سے چلو بلکہ اطمینان و سکون کے ساتھ چلنا چاہیے اور جنازہ لے جاتے وقت بلند آواز سے تلاوت قرآن یا لاالہ الا اللہ یا ذکر وغیرہ نہ کیا جائے یا استغفار وغیرہ کے لیے کہنا درست نہیں کیونکہ یہ سراسر بدعت ہے۔
جنازے کے ساتھ عورتوں کا گھروں سے نکلنا حرام ہے کیونکہ سیدہ اُم عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: "نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ""ہمیں جنازے کے ساتھ جانے سے منع کر دیا گیا۔"[2]
عہد نبوی میں خواتین اسلام جنازوں کے ساتھ شریک نہیں ہوتی تھیں ،لہٰذا جنازوں کے ساتھ جانا صرف مردوں کاکام ہے۔
مسنون یہ ہے کہ قبر گہری اور وسیع بنائی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"احْفِرُوا وَأَوْسِعُوا وَأَعْمِقُوا " "قبر بناؤ اور اسے وسیع[3] اور گہرا کرو۔"[4]
عورت کو قبر میں اتارتے وقت قبر پر پردے کا اہتمام کرنا مسنون ہے کیونکہ عورت کا معنی ہی پردہ ہے، لہٰذا حتی الامکان اسے پردے میں رکھا جائے۔
جو شخص میت کو قبر میں اتارے وہ کہے:
"بِسْمِ اللّٰهِ ، وَباللّٰهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم"
"اللہ کے نام اور اللہ کی توفیق کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر (ہم اسے دفن کرتے ہیں)"[5]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہی ہدایت کی ہے۔
|