Maktaba Wahhabi

257 - 373
ارشاد ہے: "نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ" "مومن کی جان اس کے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتی کہ اسے ادا کر دیا جائے۔"[1] اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرضہ میت کے ذمے رہتا ہے اور اس وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ اس حدیث شریف میں میت کے قرضے کی ادائیگی پر رغبت دلائی گئی ہے ۔لیکن یہ تب ہے جب میت کا مال ہو جس سے اس کا قرضہ ادا ہو سکے ۔اگر کسی میت کے پاس زندگی میں مال نہ تھا اور وہ قرض کی ادائیگی کا پختہ ارادہ رکھتا تھا تو احادیث میں ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے خود ادا کردے گا۔"[2] میت کو غسل دینے کا طریقہ اور اس کے مسائل احکام جنازہ میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ میت کو وہ شخص غسل دے جو اس کا سلیقہ و طریقہ جانتا ہو اور غسل دے سکتا ہو۔ ایک شخص اونٹنی سے گر کر مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ" "اسے پانی میں بیری کے پتے ڈال کر غسل دو۔"[3] میت کوغسل دینے کے بارے میں اہل اسلام کا قول اور عمل تواتر سے چلا آرہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات کے بعد غسل دیا گیا ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہری اور باطنی طور پر پاک تھے تو پھر کسی دوسرے مسلمان کو غسل کیوں نہ دیا جائے؟ غسل میت ان لوگوں پر فرض کفایہ ہے جنھیں اس کی وفات کا علم ہو جائے۔ میت مرد ہو تو اسے مرد ہی غسل دے۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ میت کو غسل دینے کے لیے کسی باعتماد اور مسائل غسل سے واقف شخص سے کام لیا جائے کیونکہ یہ ایسا شرعی حکم ہے جس کا ایک خاص طریقہ وسلیقہ ہے، لہٰذا سے صحیح طور پر وہی شخص سرانجام دے سکتا ہے جو اس بارے میں احکام شرعیہ سے واقف ہو۔ اگر اس بارے میں میت نے
Flag Counter