"وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ جَالِسًا"
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرکے سر اٹھاتے تھے تو اس وقت تک دوسرا سجدہ نہ کرتے جب تک برابر ہوکر اطمینان سے بیٹھ نہ جاتے تھے۔"[1]
9۔افعال مذکورہ میں اعتدال کا ہونا:مندرجہ بالاارکان میں اعتدال اور سکون بھی فرض اور رکن ہے اگرچہ قلیل مقدار ہی میں کیوں نہ ہو۔کتاب وسنت کےدلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اپنی نماز میں اعتدال وسکون کااہتمام نہیں کرتا تووہ ایسے ہے جیسے اس نے نماز پڑھی ہی نہیں،لہذا اسے دوبارہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا جائے گا۔[2]
10۔آخری تشہد پڑھنا اور اس کے لیے بیٹھنا:نماز کے آخرمیں تشہد کے لیے بیٹھنا اور اس میں تشہد کے کلمات پڑھنا نماز کاایک رکن ہے۔تشہد کے کلمات:
"التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" تک ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ کلمات پڑھتے تھے اور آپ کاارشادہے:
"صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي""تم ایسے نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"[3]
اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
"كنا نقول في الصلاة قبل أن يفرض علينا التشهد" "تشہد فرض ہونے سے قبل ہم نماز میں یہ کہاکرتے تھے۔"[4]
اس روایت کےالفاظ: " قبل أن يفرض" تشہد کی فرضیت پر دلیل ہیں۔
11۔ آخر ی تشہد میں درودشریف کا پڑھنا: "اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ"اس قدر کہنا فرض ہے۔اور اس سے زیادہ کلمات(درود ابراہیمی) کہنا سنت ہے۔[5]
|