Maktaba Wahhabi

77 - 103
پر بحث و تحقیق دیگر محدثین کے اقوال کی رو شنی سے کر یں گے نہ کہ امام بخا ری کے خا مو ش رہنے کی وجہ سے اس راوی کے ثقہ یا ضعیف ہو نے پر استدلال کیا جا ئے گا،جس طر ح فر قِ با طلہ کر تے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ راوی ہی اس قدر جلیل القد ر تھا کہ اس کے مقا م کی وجہ سے اس پر خا مو ش رہنا ہی بہتر سمجھا، کسی نے کہا کہ جس پر امام بخا ری خا موشی اختیا ر کر یں وہ راوی ان کے نزدیک ثقہ ہے وغیرہ، یہ با تیں با طل و مردود ہیں۔ شیخ العر ب والعجم امام بد یع الدین شا ہ راشدی رحمہ اللہ اس پر رد کر تے ہو ئے لکھتے ہیں::’’اس اصول کے بطلا ن کے لیے یہی کا فی ہے کہ خو د امام بخا ری نے تا ریخ میں متعدد ایسے راویو ں پر سکو ت کیا ہے جن پر انھو ں نے اپنی دوسری کتابوں میں جر ح کی ہے، مثلا ًتا ریخ میں انھو ں نے حسب ِذیل افر اد کا ذکر کیا ہے:’’ الحا رث بن نعما ن البثیی، اصلت بن مہرا ن التیمی، الکو فی ابو ہا شم، عبد اللّٰه بن معا ویہ، الزبیر بن عوا م الاسدی البصری، عبد اللّٰه بن محمد بن عجلا ن مو لی فا طمۃ بنت عتبۃ القر شی، عبدالرحمن بن زیا دہ بن انعم افریقی،عبد الو ھا ب بن عطا ء الخفا ف، عمر ان العمی، عا صم بن عبیداللّٰه العمری، معا ویہ الثقفی، ابو عبد الرحمن بصری، مختا ر بن نا فع ابو اسحا ق التیمی، نصر بن حما د بن عجلا ن، یحیی بن ابی سلیمان المدنی، یحیی بن محمد الجا ری، ان کے با رے میں انھو ں نے کو ئی کلام نہیں کیا نہ جر ح کی، مگر ان کو الضعفا ء میں ذکر کیا اور ان پر جر ح کی ‘‘[1] اس بحث پرایک مفصل رسا لہ (رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم ائمۃ الجرح والتعدیل بین التو ثیق والتجھیل۔از شیخ عد اب محمو د )ہے تفصیل کا طا لب
Flag Counter