Maktaba Wahhabi

25 - 103
۶۔ رواۃ میں سے مہمل کی تمییز ہو نا، جب ایک سند میں مہمل راوی ہو مثلاً ’’عن محمد ‘‘ تو دو سری سند میں اس کی وضاحت مل جا تی ہے۔ ۷۔ مبہم کی تعیین، بسا اوقات سند میں ایک راوی مبہم ہو تا ہے مثلا ً ’’ عن رجل ‘‘ تو دوسر ی سند میں اس کی وضا حت مل جا تی ہے۔ ۸۔ مدلس راوی کے سما ع کی صر ا حت کا ملنا۔ ۹۔ مختلط راوی کے اختلا ط کی وضاحت کا ملنا، ایک سند میں مختلط راو ی ہے تو کسی دوسر ی سند میں اس کی وضا حت مل جا تی ہے کہ فلا ں راوی نے اس کے اختلا ط میں مبتلا ہونے سے پہلے سنا ہے یا بعد میں، اگر اختلا ط سے پہلے سنا ہے تو حدیث صحیح اور اگر بعد میں سنا ہے تو ضعیف۔ ۱۰۔ حد یث میں نقص اور زیا دتی کی وضا حت۔ ۱۱: بعض دفعہ جس لفظ کو تلا ش کیا جا رہا ہے، وہ کئی احا دیث میں موجو د ہے تو اس حالت میں تمام حوا لہ جا ت کو اصل ماخذوں سے تلا ش کیا جا ئے، تب اس اصل مقصو د تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ۱۲: جو شخص اپنا وقت حد یث کو تلا ش کر نے اور اس کی تحقیق و تخر یج و تشر یح میں گزا ر تا ہے، وہ لو گو ں میں ممتا ز ہو جا تا ہے اور مستقبل میں ’’محدث ‘‘ کے نا م سے یا د کیا جا تا ہے۔ ۱۳: مشہور محقق و محدث فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن عبد الحنان بن حکیم اشرف سندھو حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’تخر یج کا سب سے بڑا فا ئدہ یہ ہے کہ کسی حد یث پر غلط حکم لگا نے سے بچا جا سکتا ہے، مثال کے طو ر پر ابو داود یا دو سری سنن میں ایک حدیث ایسی آ جا تی ہے کہ جس کی سند میں کسی راوی کے ضعیف ہونے کا حکم لگا دیا جا ئے تو یہ درست نہ ہو گا۔کیو نکہ ممکن ہے کہ سنن بیہقی یا مسنداحمد وغیر ہ میں اس ضعیف یا مدلس راوی کی کسی دوسرے راوی نے متابعت کی ہو، یا اس مد لس نے وہا ں تحدیث یا سما ع
Flag Counter