Maktaba Wahhabi

59 - 373
موجود تھے، بلکہ ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے، اسناد، راویوں کے حالات، سند کی کمزوریوں اور جرح و تعدیل میں پڑنے کی ان کو ضرورت ہی نہیں تھی، قواعد و اصول فقہ اور اصولیوں کی تفصیلات میں جانے کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔ ان سب چیزوں سے وہ لوگ بے نیاز تھے۔ ان کے ہاں تو دو باتیں تھیں ایک یا تو اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ہے؟ دوسری یہ کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ انہی دو باتوں میں وہ بے انتہاء خوش قسمت تھے بلکہ پوری امت کی نسبت خود کفیل تھے کہ ان کی ساری کی ساری صلاحیتیں اور قوتیں مجتمع ہو کے اسی کام پر لگی ہوئی تھیں۔ کیوں نہ ہو کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل تھا جو اس صحبت کے دوران قرآن کے اسرار کا مشاہدہ کرتے رہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بنفس نفیس علم لیتے رہے، نزول قرآن، اسباب نزول، تفسیر اور آداب تفسیر سے براہ راست بہرہ ور ہوتے رہے اور قرآن کی روشنیوں اور نبوت کی شعاؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ امت میں سے یہ حضرات خوش قسمت ترین اقرب الی الصواب اور قرآن و سنت کے تفقہ کے سب سے بڑھ کر اہل ہیں۔ [1] امام ابن قیم رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں: انبیاء علیہم السلام کی وراثت کا حق رکھنے والے
Flag Counter