Maktaba Wahhabi

275 - 373
داغدار کرتی ہے اگر ایسی(خرابی)کی شہادت دینے والے کو بطور استفاضہ(جو خبر زبان زد عام ہو)وہ بات معلوم ہوئی ہو تو بھی شہادت دی جا سکتی ہے۔۔ یعنی ضروری نہیں کہ وہ علم بذات خود سننے اور دیکھنے کا ہی نتیجہ ہو۔۔ اور یہ بھی قدح شرعی شمار ہو گی۔۔ اور میں نہیں جانتا کہ اس بارے میں کوئی اختلاف ہو۔ کیونکہ اس دور میں سبھی مسلمان عمر بن عبدالعزیز، حسن بصری رحمہم اللہ اور اس طرح کے دیگر اہل عدل اور حاملین دین کے بارے میں شہادت صرف علم مستفیض(شہرت)کی بناء پر دیتے ہیں۔ اسی طرح حجاج بن یوسف، مختار بن ابی عبید، عمرو بن ابی عبید، غیلان القدری، اور عبداللہ بن سبا رافضی ایسے لوگوں کے بارے میں ظلم یا بدعت وغیرہ کی جو شہادت دیتے ہیں وہ بھی صرف علم مستفیض کی بناء پر ہی ہوتی ہے۔۔ یہ بھی تب ہے جب مقصد کسی کی شہادت یا ولایت رد کرنے کے لئے اس کی تفسیق کرنا ہو، اور اگر مقصد یہ ہو اس سے لوگوں کو خبردار کیا جائے اور اس کے شر سے بچا جائے تو اس سے کم پر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔۔ جو شخص بدعت کی طرف دعوت دیتا ہے اس کے بارے میں سب مسلمانوں کا اختلاف ہے کہ وہ سزا کا مستوجب ہے، اور اس کی سزاء قتل بھی ہو سکتی ہے اور اس سے کم بھی۔ اور اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ سزا کا مستحق نہیں یا یہ کہ اسے سزا نہیں دی جا سکتی تو پھر بھی اس کی بدعت کو بیان اور واضح کرنا اور اس سے خبردار کرنا تو بہرحال ضروری ہے کیونکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منجملہ امور میں شامل ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برحق نے حکم دے رکھا ہے اور وہ بدعت جس کی بناء پر آدمی اہل اھواء میں شمار ہوتا ہے ایسی بدعت وہی ہے جس کا کتاب اور سنت کے مخالف اور برعکس ہونا علماء سنت کے ہاں مشہور و معروف ہو، مثال کے طور پر خوارج، روافض، قدریہ اور
Flag Counter