کر کے بے انتہاء جھوٹ بولا جانے لگا جیسا کہ شریک رحمہ اللہ نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہتے ہیں کہ میں نے خزیمہ سے سنا جبکہ مختار کا دور تھا اور دروغ گوئی بہت عام تھی وہ خود شیعان علی میں سے تھے۔۔ کہ انہوں نے کہا: ’’اللہ غارت کرے کیسے لوگ ہیں کس جماعت کو برا بھلا کہتے ہیں اور کس قدر حدیث میں دروغ گو ہیں۔‘‘(شرح علل الترمذی 1/52)
اب جب اسناد اور رجال کے بارے میں چھان پھٹک شروع ہوئی اور قابل قبول اور ناقابل قبول راویوں میں تمیز شروع ہوئی تو اہل الحدیث دوسرے اہل اھواء و شہوات سے متمیز ہونا شروع ہو گئے تاآنکہ ’’اہل الحدیث‘‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی جس کا مطلب تھا علم حدیث کا اہتمام کرنے والے اہل سنت جس کی روایت قابل قبول ہے اس وجہ سے کہ یہ بدعت کے مرتکب نہیں اور نہ ہی اہل شہوات کے اقوال کے خوشہ چین ہیں۔
(3) تاہم خوار کا مسئلہ روافض کے بالکل برعکس تھا۔۔ اگرچہ یہ دونوں فتنے بدعات و فتن کی تاریخ میں سب سے پہلے شمار ہوتے ہیں۔۔ لیکن خوارج کی بابت مشہور ہے کہ وہ سچ بولا کرتے تھے۔[1] چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ ان کے داعیوں تک سے روایت کرتے ہیں۔ خوارج کی بدعت اور گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی جماعت سے خروج کر لیا تھا، اپنے علاوہ سب کو کافر گردانتے تھے، اپنی صفوف سے الگ تھلگ رکھتے تھے اور ان سے جنگ و قتال کرتے تھے۔ ان کی بدعت اور انحراف کی شدید ترین زد مسلمانوں پر پڑتی تھی۔ اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی اور سبھی
|