سمجھتے ہیں ،جو کفر اس میں ہے اس کو جانتے نہیں ،میں اس کا اظھار سب کے سامنے نہ پسند کرتا ہوں ۔لوگ سوال کرتے ہیں میں اس میں کلام کرنا نا پسند کرتا ہوں اور مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ میں اس مسئلہ میں امساک کرتا ہوں ۔ میں (ابوبکر)نے کہا :جو کہے قرآن مخلوق ہے اللہ کے اسماء اور علم کے بارے کچھ نہ کہے کیا میں کہوں کہ وہ کافر ہے؟فرمانے لگے ہمارے نزدیک وہ کافر ہی ہے۔پھر ابو عبداللہ نے فرمایا:ہمیں قرآن میں شک کرنے کی چند اں ضرورت نہیں ۔اس میں اسماء اللہ وعلم اللہ ہے ۔جس نے کہا :یہ مخلوق ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے۔میں (ابو بکر)باربارامام احمد سے یہ بات کرتا رہا تو مجھے عباس نے کہا :سبحان اللہ کیا اس سے کم تجھے کافی نہیں ؟امام احمد فرمانے لگے :کیوں نہیں ۔[1] ۲: حسین بن عبدالاول ذکر کرتے ہیں کہ میں نے وکیع کو فرماتے ہوے سنا کہ جس نے کہا: قرآن مخلوق ہے وہ مرتد ہے۔اس سے توبہ کروائی جائے گی،توبہ کرلے گا(تو ٹھیک) وگرنہ قتل کردیا جائے گا۔[2] ۳: محمد بن صبا ح بزار فرماتے ہیں :ہمیں علی بن حسن بن شقیق نے بیان کیا فرماتے ہیں :میں نے ابن مبارک کو فرماتے ہوئے سنا کہہ رہے تھے :ہم یہود ونصاری کا کلام حکایت کرنے کی جسارت کر سکتے ہیں لیکن جھمیہ کے کلام کی حکایت کی استطاعت نہیں رکھتے ۔محمد فرماتے ہیں :آپ کا مطلب تھا ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں لاعلمی میں کفر نہ کر بیٹھیں ۔(یعنی جھمیہ کا کلام بہت بڑے کفر پر مشتمل ہے) [3] |