میں اکل و شرب اور نکاح جائز ہوتا ہے۔جب کہ یہ کلام اللہ کے حق میں جائز نہیں ۔یہ بھی جائز نہیں کلام اللہ کسی شخص کی صفت ہو ۔ کیونکہ صفات آنکھ جھپکنے کے بقدر بھی باقی نہیں رہتی ۔صفات بقاء کی متحمل نہیں ہوتی۔اس صورت میں یہ واجب آتا ہے کہ کلام اللہ فنا ء ہو گیا ۔پس یہ جائز نہ ہوا کہ کلام اللہ شخص یا شخص کی صفت ہو ۔اور جب یہ جائز نہ ہوا تو یہ بھی جائز نہ ہوا کہ مخلوق ہو ۔اشخاص پر تو موت بھی جائز ہوتی ہے ۔جس نے کلام اللہ کو شخص ثابت کیا اس کو یہ لازم آتا ہے کہ وہ کلام اللہ پر موت کو بھی جائز کہے ۔اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جو جائز نہیں ۔یہ بھی جائز نہیں کہ کلام اللہ کسی مخلوق شخص میں پیدا کیا گیا ہو ۔جیسا کہ یہ بھی جائز نہیں کہ کلام اللہ کسی مخلوق شخص کی صفت ہو۔اگر یہ کسی شخص میں پیدا کیا گیا ہوتا تو کلام اللہ اور کلام الخلق میں فرق کرنا ممکن نہ ہوتا کیونکہ دو نوں شخص مخلوق میں مخلوق ہوتے ۔کلام اللہ کا کسی شخص میں مخلوق ہونا اسی طرح جائز نہیں جس طرح یہ جائز نہیں کہ اس کا علم کسی مخلوق شخص میں پیدا کیا گیا ہو ۔ ۲۹: ان لوگوں سے کہا جائے گا :اگر کلام اللہ مخلوق ہوتا تو یا تو جسم ہوتا یا جسم کی صفت اگر جسم ہوتا تو یہ جائز تھا کہ (کلام اللہ خود بھی)متکلم ہو۔(کیوں کہ اللہ کی قدرت سے جسم بھی کلام کرسکتا ہے)اور اللہ جسم کو بدلنے میں قادر ہے ۔اس سے جھمیہ کو یہ لازم آتا ہے کہ وہ یہ بات جائز قرار دیں کہ اللہ قرآن کو انسان یا ہرن یا شیطان بنا سکتا ہے۔اللہ کا کلام اس سے بلند ہے کہ اس طرح ہو۔ اگر کلام اللہ کسی جسم کی صفت ہو جیسے صفات ہوتی ہیں تو اللہ صفات کو اجسام بنانے پر قادر ہے۔اس سے جھمیہ پر یہ واجب آتا ہے کہ وہ یہ جائز قرار دیں کہ اللہ قرآن کو کھا پی کر ممتد ہونے والا جسم بنا دے یا انسان بنا کر موت دے دے۔حالاں کہ یہ سب کلام اللہ کے حق میں جائز نہیں ۔ ٭٭٭ |