جبر ائیل و میکا ئیل کے سوا فرشتو ں کا دشمن ہے ۔ پھر اس کے بعد الگ سے ان دو نوں کا تذ کرہ کیاکہ جو ا ن کابھی دشمن ہے ۔لیکن یہا ں جب ﴿ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ﴾کہا خلق کو خا ص نہ کیا تو اس میں دلیل ہو ئی کہ تما م مخلو ق مرادہے ۔ خلق کے بعد امر کو بیا ن کیا ۔ اور امر کو خلق سے الگ طو ر پر واضح کیا ۔اور اللہ کا امر اللہ کا کلا م ہے ۔ اور اس سے یہ واجب ٹھہرتا ہے کہ اللہ کا کلا م غیر مخلو ق ہے اللہ تعا لیٰ کا ارشا د ہے : ﴿ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ﴾[الروم:۴ ]پہلے بھی اللہ کا حکم چلتا تھا اور بعد میں بھی اسی کا چلے گا ۔ یعنی مخلو ق کو پیدا کرنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی امرللہ ہی کے لیے ہے ۔ اس سے بھی یہ واجب ٹھہرتا ہے کہ امر غیر مخلو ق ہے ۔ ۴: ایک اور دلیل ملاحظہ فرمائیں :اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿ إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴾(النحل:۴)’’ہم تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ ہو جا وہ ہو جاتی ہے‘‘اگر قرآن مخلوق ہوتا تو اس کو بھی کن وجوبی طور پر کہا گیا ہوتا،اور اگر اللہ قول کو کن کہنے والا تو اس کا مطلب ہے قول کے لیے بھی ایک قول ’’کن‘‘ہوتا ہے ۔اور اس سے دو میں سے ایک صورت واجب آتی ہے ،یا تو معاملہ یہاں ختم ہو گا کہ اللہ کا قول غیر مخلوق ہے یا پھر یہ کہ ہر قول ایک قول کے توسط سے واقع ہوتاہے ۔وہ قول کسی اور قول سے اسی طرح غیر متناہی (قول لازم)آتے ہیں اور یہ محال ہے ۔اور جب یہ محال ثابت ہوا تو ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل کا ایک قول ہے جو غیر مخلوق ہے۔ ۵: اگر کوئی یہ کہے کہ ﴿ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴾کا معنی یہ ہے کہ اللہ چیز کو بناتا ہے تو وہ ہو جاتی ہے ۔اس کہنے والے سے کہا جائے گا:ظاھری معنی یہ ہے کہ اللہ اس چیز سے کن کہتا ہے ۔اور یہ جائز نہیں کہ اللہ کا تمام اشیاء کو ’’کن‘‘کہنا ہی اشیاء ہو ۔کیوں کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام اشیاء ہی اللہ کا کلام ہیں ۔اور جس نے یہ کہا اس نے بڑا جھوٹ |