کی تقدیر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے عمل کرنے لگتاہے اوردوزخ میں داخل ہوتاہے ،اسی طرح ایک شخص دوزخ والوں کے عمل کرتاہے اور جب اسکے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کافاصلہ رہ جاتاہے تو تقدیر غالب آتی ہے اورجنت والوں کے کام کرنے لگتاہے ،پھر جنت میں داخل ہوتاہے‘‘۔ ۲۔معاویہ بن عمرو اززائدہ ازاعمش از ابو صالح از ابو ھریرہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ((احتج آدم وموسی ،قال موسی :یاآدم انت الذی خلقک اللّٰہ بیدہ ،ونفخ فیک من روحہ ،اغویت الناس واخرجتھم من الجنۃ ،قال آدم :لموسی انت الذی اصطفاک اللّٰہ بکلمات ،أتلومنی علی غل کتبہ اللّٰہ علی قبل ان یخلق اللّٰہ السموات قال :فحج آدم موسی))( بخاری:۳۴۰۹،مسلم ۲۶۵۲ ’’سیدناموسی علیہ السلام اورسیدناآدم علیہ السلام نے آپس میں بحث کی ،موسی علیہ السلام نے ان سے کہا آپ آدم ہیں جنہیں ان کی لغزش نے جنت سے نکالا۔سیدناآدم بولے آپ موسی علیہ السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام سے چن لیا،کیا آپ مجھے ایسے کام پر ملامت کرتے ہیں جو مجھ پر اللہ نے آسمان پیداکرنے سے پہلے لکھ دیا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پس آدم موسی پر غالب آگئے ۔ ۳۔یہ حدیث مالک نے ابوزناد اعرج سے اور انھوں نے ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۔ اور یہ قدریہ کے قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے ۔جوکہتے ہیں کہ اللہ کسی چیز کے واقع ہونے سے قبل اس کو جانتانہیں کہ اس نے وہ لکھاہوجو جانتاہی نہ ہو!! |