[البرہان في علوم القرآن: ۱/۲۲۳] ’’ساتواں قول قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ نے اختیارکیا ہے اور فرمایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہرت کے ساتھ منقول ہیں ،اَئمہ نے انہیں محفوظ رکھا ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں مصاحف میں باقی رکھاہے۔‘‘ ۴۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول کی بڑے سخت الفاظ میں تردید کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چھ حروف کے ختم کرنے کاقول بالکل غلط ہے اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرنا بھی چاہتے تو نہ کرسکتے، کیونکہ عالم اسلام کاچپہ چپہ ان حروف سبعہ کے حافظوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں : وأما قول من قال: ’أبطل الأحرف الستۃ‘ فقد کذب من قال ذلک ولو فعل عثمان ذلک أو أرادہ لخرج عن الإسلام ولما مطل ساعۃ بل الأحرف السبعۃ کلھا موجودۃ عندنا قائمۃ کما کانت مثبوتۃ في القراءات المشھورۃ المأثورۃ [الفصل في الملل والأھواء والنحل:۲/۷۷،۷۸] ’’یہ قول کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو منسوخ کردیاتوجس نے یہ بات کہی ہے اس نے بالکل غلط کہا ہے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرتے یا اس کا ارادہ کرتے تو ایک ساعت کے توقف کے بغیر اسلام سے خارج ہوجاتے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں کے ساتوں حروف ہمارے پاس بعینہٖ موجود ، مشہور اور قراء توں میں محفوظ ہیں ۔‘‘ ۵۔ مشہور شارح مؤطا علامہ ابوالولید باجی مالکی رحمہ اللہ [م ۴۹۴ھ] ’سبعہ احرف‘کی تشریح سات وجوہ قراءات سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں : فإن قیل: ھل تقولون أن جمیع ھذہ السبعۃ الأحرف ثابتۃ في المصحف فإن القراءۃ بجمیعھا جائزۃ، قیل لھم: کذلک نقول، والدلیل علی صحۃ ذلک قولہ عز وجل: ﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾، ولا یصح انفصال الذّکر المنزل من قراء تہٖ فیمکن حفظہ دونھا ومما یدل علیٰ صحۃ ما ذھبنا إلیہ أن ظاھر قول النبي ! یدل علی أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف تیسیرا علی من أراد قراء تہ لیقرأ کل رجل منھم بما تیسّر علیہ وبما ھو أخف علی طبعہ وأقرب إلی لغتہ لما یلحق من المشقّۃ بترک المألوف من العادۃ فی النطق ونحن الیوم مع عجمۃ ألسنتنا وبعدنا عن فصاحۃ العرب أحوج [المنتقٰی شرح الموطأ: ۱/۳۴۷] ’’اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کا قول یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف مصحف میں آج بھی موجود ہیں اس لیے کہ ان سب کی قراءت آپ کے نزدیک جائز ہے؟ تو ہم یہ کہیں گے کہ جی ہاں ، ہمارا قول یہی ہے، اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کایہ ارشاد ہے:﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾’’ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاطت کرنے والے ہیں ۔‘‘ اور قرآن کریم کو اس کی قراءات سے الگ نہیں کیاجاسکتاکہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراءات ختم ہوجائیں اور ہمارے قول کی صحت پرایک دلیل یہ بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کھلے طور پردلالت کرتا ہے کہ قرآن کو سات حروف پر اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اس کی قراءت کرنے والے کوآسانی ہو، تاکہ ہر شخص اس طریقہ سے تلاوت کرسکے جو اس کے لیے آسان ہو اس کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سہل اور اس کی لغت سے زیادہ قریب ہو، کیونکہ گفتگو میں جو عادت پڑ جاتی ہے، اُسے ترک کرنے میں مشقت ہوتی ہے اور آج ہم لوگ اپنی زبان کی عجمیت اور عربی فصاحت سے دور ہونے کی بناء پر اس سہولت کے زیادہ محتاج ہیں ۔‘‘ ۶۔ حضرت امام غزالی رحمہ اللہ اُصول فقہ پراپنی مشہور کتاب المستصفی میں قرآن کریم کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں : |