Maktaba Wahhabi

88 - 933
کو)معلوم ہوسکے کہ آیا اس میں کوئی اور قراءت ہے یا نہیں اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ جب لکھتے وقت حافظ بھی اصل پر اعتماد کرے تو یہ زیادہ موزوں اور قابل اعتماد ہوتا ہے، کیونکہ مکتوب رسم الخط کے موافق لکھنا زیادہ بلیغ اورممکن الحصول ہے اور اس لیے بھی کہ خبر واحد کی بجائے قطعی طریقے سے حاصل ہونے والا علم زیادہ قوی اور پختہ ہوتا ہے۔ سوال کے دوسرے حصے کا جواب کہ زید رضی اللہ عنہ کے قول: ’’ فقدت ایۃ لم أرھا مکتبوۃ اورلم أجدھا إلا عند رجل کا مطلب یہ ہے کہ: ’’وہ آیت مجھے لکھی ہوئی صرف ایک آدمی کے پاس سے ملی۔مزید اگر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول پر غور کیاجائے تو اس میں عند رجل(ایک آدمی کے پاس تھی) ہے نہ کہ فی حفظ رجل(صرف ایک حافظ کے علم میں تھی) اور یہ بھی یاد رہے کہ تواتر کتابت سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ قراء کی تعداد توعدد تواتر سے کہیں زیادہ تھی۔ ‘‘ مذکورہ بالا تقریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زید نے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مصداق منزل اَحرف سبعہ کی تمام معتبر وجوہ قراء ات(برابر ہے کہ وہ متفقہ تھیں یا مختلفہ) کو مصحف میں جمع کیا، کیونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں سارا قرآن جمع کرنے کا حکم دیا تھااور حروفِ سبعہ کا ہر ہرحرف قرآن مجیدہے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی رہ جاتا تومکمل نہ ہوتا۔امام شاطبی رحمہ اللہ نے اسی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: فقام فیہ بعون اللّٰہ یجمعہ یاالقصح والجدوا لعزم الذی بھرا من کل أوجہ حتی استتم لہ بالسبعۃ الأحرف العلیا کما اشتھرا ’’ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اللہ کی مدد، جہد مسلسل اور عزم مصمم کے ساتھ امت کی خیر خواہی کو سامنے رکھتے ہوئے جمع قرآن کے کام کا بیڑا اٹھایا حتیٰ کہ انہوں نے احرف سبعہ کی تمام وجوہ معروفہ و مشہورہ کو مصاحف میں جمع کردیا۔‘‘ عہد عثمانی میں زید کا جمع کردہ مصحف کس کے پاس رکھا گیا؟ نیز عہد عثمانی میں اسی مصحف سے مزید مصاحف کس نے اور کیوں جمع کئے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید مکمل لکھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ یہ قرآن انہی کے پاس تاوفات رہا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہی نسخہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا جب عمر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو یہی مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں دے دیا گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو عمر رضی اللہ عنہ کو نص کی وجہ سے منتقل کیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ مصحف منتقل اس لیے نہیں کیا تھا، کیونکہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کامعاملہ شوریٰ کے سپرد کردیاتھا۔ نوٹ: اس سے مصحف کے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہونے کی نفی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت تھی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی مصحف کا حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس ہونا نقل کیا ہے۔ عہد عثمانی میں حذیفہ رضی اللہ عنہ ، آرمینیہ اور آذربائیجان کی لڑائی میں شریک ہوئے۔اتفاقاً یہ دونوں لڑائیاں ایک ہی سال میں ہوئی تھیں اور ان میں سے ہر دومیں شام اور عراق سے لشکر شامل ہوئے۔آرمینیہ کئی شہروں پرمشتمل ایک بہت بڑا شہر ہے۔یہ شمال کی طرف واقع ہے۔ یہ شہر اپنی خوبصورتی،معتدل آب و ہوا، کثیرپانی اور درختوں کی وجہ سے اپنی مثال
Flag Counter