اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایامختلف علاقوں میں بکثرت قراء کے شہید ہونے کی وجہ سے مجھے ڈر ہے کہیں قرآن ختم نہ ہوجائے، لہٰذا آپ جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیے ۔ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اورنہ ہی اس کے کرنے کے بارہ میں ہمیں کہا ہے تو میں ایسا کام کیوں کروں ؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ یہ کام کیجئے، اللہ کی قسم اس میں خیر ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کام کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کووہ دکھایا جوعمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا اورایک روایت کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس کام کے لیے اصرارکرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرے سینے کو اس کام کے لیے کھول دیا۔‘‘ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلایا ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے مجھے قرآن جمع کرنے کاکہا۔میں نے عمر رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے کہا ہم وہ کام کیسے کرسکتے ہیں جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم یہ سراسر خیر ہے۔ وہ مجھ سے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا۔ انہوں نے کہا تو عقل مند نوجوان آدمی ہے اور کاتب وحی بھی ہے، لہٰذا میں تمہیں اس کام کی زحمت دوں گا۔آپ قرآن کو کتابی شکل میں جمع کریں ۔ میں نے ان دونوں سے کہا جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیاوہ آپ کیوں کررہے ہیں ؟ ان دونوں نے کہا: اللہ کی قسم اس میں خیر ہے۔ وہ مجھ سے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرے سینے کو کھول دیا اور مجھے بھی وہ(خیر)نظر آنے لگی جو انہوں نے دیکھی تھی۔ سوال: ﴿إنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ﴾کا علم ہونے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرآن ختم ہونے کا خوف کیا معنی رکھتا ہے؟ جواب:عمر رضی اللہ عنہ کے قول کامطلب یہ ہے کہ قرآن مجید چونکہ مختلف لوگوں کے پاس تھا،جب لوگ فوت ہوگئے تو ان کے جانے کے ساتھ وہ لکھا ہوا بھی ختم ہونے کا اِمکان تھا،کیونکہ نامعلوم متوفی نے وہ مکتوب آیات کہاں رکھی ہوں اور کیسے لکھی ہوں ـ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے کامطلب الفاظِ قرآن کا ختم ہونا نہ تھا بلکہ کتابت قرآن کا ختم ہونا تھا۔ ٭ یا عمر رضی اللہ عنہ نے تواتر کے ختم ہونے کااندیشہ محسوس کیا۔ ٭ یایہ کہ آیات کو محفوظ کرلینا تحریف سے محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔ سوال:ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول لم یأمر یا رسول اللّٰہ بکتابۃ القرآن کاکیا مطلب ہے اور اس پر مستزاد بخاری میں موجود روایت((لاتکتبوا عنی غیر القرآن شیئا ومن کتب غیرہ فلیمحہ)) بھی سامنے ہو تو؟ جواب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مطلب یہ تھاکہ آپ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم ان مختلف جگہ پر لکھے جانے والے قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں جمع کریں یالکھیں ۔ سوال: تیس سے زائد کاتبین وحی کی موجودگی کے باوجودزید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہی انتخاب کیوں ؟حالانکہ کاتبین وحی میں بڑے بڑے نام بھی موجود تھے، مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابان بن سعید، خالد بن ولید،ابی بن کعب، ارقم بن ابی ارقم،معاویہ بن ابی سفیان،ثابت بن قیس، حنظلہ بن ابی الربیع، ابورافع قبطی، خالد بن سعید بن عاص، زید بن ثابت،علاء بن حضرمی اور اسی طرح کتابین اَموال صدقہ میں سے زبیر بن عوام، اورجہم بن صلت، کھجوروں کے |