شیخ: جو پڑھا ہے اور پڑھایا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلے اور خاتمہ ایمان پر ہو۔ رشد: آپ کے بھائی کتنے ہیں ؟ شیخ: ہم کل چھ بھائی ہیں اور میرا نمبر دوسرا ہے۔ رشد: آپ کی بہنیں کتنی ہیں ؟ شیخ: میری تین بہنیں ہیں جوکہ شادی شدہ ہیں ۔ رشد: دوران تعلیم کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا؟ شیخ: دوران تعلیم میں کافی بیماررہاہوں ۔اس سلسلے میں ایک واقعہ سناتا ہوں ۔ میں جب جامعہ اِسلامیہ گوجرانوالہ میں تھا۔ ایک دن ہم کچھ دوست مل کر کینو کھا رہے تھے۔لڑکے عموماً چونکہ مجلس میں مذاق وغیرہ کرتے رہتے ہیں ۔اسی طرح کسی لڑکے نے مذاق کیا تو ہم ہنسنا شروع ہوگئے۔اسی دوران مجھے ہچکی لگ گئی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور اس کی وجہ سے میرے سینے میں درد بھی شروع ہوگیا حتیٰ کہ اگلے دن منہ سے خون آنا بھی شروع ہوگیا۔ ا س کے علاوہ حفظ کے دوران میں کافی بیمار رہا۔گردے میں تکلیف بھی شروع ہوئی تھی۔ اس وقت میں جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں تھا۔ڈاکٹر نے کہا کہ یہ چھ سات ماہ مکمل آرام کرے ، دوائی کھائے اس کے بعد یہاں آسکتا ہے،لیکن مجھے چین نہیں آرہا تھا۔میں پندرہ بیس دن بعد والدہ کے روکنے کے باوجود بضد ہوکر مدرسہ پہنچ گیا۔ادھر جاکر مولانا ابوالبرکات رحمہ اللہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ تم پھر اس طرح کرو کہ صبح کی سنتوں اور نماز کے دوران ۴۱ مرتبہ الحمدشریف اور ۴۱ مرتبہ درود شریف پڑھا کرو۔ میں یہ وظیفہ کرتا رہا یہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے مکمل شفا دے دی۔ رشد: بھائیوں کے نام ترتیب وار بتائیں ؟ شیخ: محمد یونس، ادریس عاصم، سعید احمد، خالد محمود، طاہر محمود اور شاہد محمود رشد: آپ کے اَساتذہ کے ساتھ کیسے تعلقات تھے؟ شیخ: اَساتذہ کے ساتھ میں بہت قرابت رکھتا تھا۔ میں اس سلسلے میں ایک واقعہ گوش گزارکرتا ہوں ۔ جب میں مدینہ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو شیخ مرصفی رحمہ اللہ جب ہمیں پڑھانے آتے تو ساتھ برگر ٹائپ ایک چیز جسے ادھر’سمولی‘ کہا جاتا ہے،لے کر آتے اور پیریڈ کے بعد جب وقفہ ہوتا تو وہ اس کے ساتھ ناشتہ کرتے۔ ایک دن انہوں نے مجھے بلایا اور آدھا ریال دے کر کہا کہ چائے لے کر آؤ۔ میں کینٹین کے گلاس ہی میں چائے لے کر حاضر ہوگیا۔ شیخ مرصفی رحمہ اللہ نے آدھی سمولی توڑ کر مجھے دی کہ آپ کھالیں ۔اس کا ذائقہ عجیب سا ہونے کی وجہ سے میں نے اسے بڑی مشکل سے کھایا ۔ دوسرے دن پھر ایسا ہی ہوا۔شیخ مرصفی رحمہ اللہ نے مجھے آدھا ریال چائے لانے کے لیے دیا۔میں جب کینٹین کے گلاس میں چائے ڈال کر جانے لگا تو کینٹین والامجھے بلاکرکہنے لگا کہ یہ گلاس ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہاکہ استاد جی کے لیے ہے تو اس نے کہا کہ آج تو لے جاؤ، لیکن کل سے یہ نہیں ملے گا۔میں اسی دن بازار گیا اور تین ریال کا ایک بڑا خوبصورت گلاس اور ایک چمچی |