Establish ہوئی۔ اس ادارہ کی ایک مناسبت یہ بھی تھی کہ ہندوستان کے اندر ایک بہت بڑی درسگاہ تھی، جس کا نام ’رحمانیہ‘ تھا اور دہلی میں یہ درسگاہ تقسیم ہند تک چلتی رہی۔ اس درسگاہ کے اندر تعلیم اور امتحانات کا نظام ہمارے خاندان کے سپرد کیا گیا تھا۔ اس درسگاہ کے اصل بانی تو ہندوستان کے دوتاجر تھے، بڑے بھائی کا نام عبدالرحمن اور چھوٹے بھائی کا نام عطاء الرحمن تھا، انہوں نے درسگاہ کے عروج کے لیے بہت کام کیا، لیکن تاجر ہونے کے ناطے علمی اور فکری کام ہمارے بز رگوں کے سپرد تھا۔ اس اعتبار سے ہمارے خاندانی کے بانی مبانی چار بزرگ، جن میں چار لوگوں کا نام آتا ہے، یعنی ہمارے تایا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ ، ہمارے والد حافظ محمد حسین روپڑی رحمہ اللہ ، حافظ اسماعیل روپڑی رحمہ اللہ اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ وغیرہ امتحان کے سلسلے میں وہاں جایا کرتے تھے۔ رحمانیہ کے نصاب کے بارے میں اگر کوئی کسی قسم کا اعتراض کرتا تو ہندوستان بھر کے علماء کو یہی کہا جاتا تھا کہ آپ بڑے میاں سے بات کریں اور بڑے میاں سے مراد حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ ہوا کرتے تھے۔ تو ہماری درسگاہ کا نام’ رحمانیہ‘ رکھنے کی دوسری مناسبت یہ تھی ۔ رشد: مدرسہ رحمانیہ سے ’جامعہ لاہور الاسلامیہ‘ تک ارتقاء کی مختصر تاریخ بتائیے؟ مولانا:جب میں نے اس درسگاہ کو Establish کیا تو میں نے کوشش کی کہ اس درسگاہ کو ’رحمانیہ‘ کی شکل پر استوار کیا جائے توچونکہ رحمانیہ بڑی نمایاں درسگاہ تھی، اس لیے میرا عزم بھی یہ تھا کہ ’ مدرسہ رحمانیہ‘ جو ہندوستان کی تقسیم کے وقت اپنا اُس طرح کا وجود باقی نہ رکھ سکا تھا(اگرچہ نام کے اعتبار سے بعد ازاں یہ کراچی میں کوشش کی گئی تھی کہ اس کا وجود باقی رکھا جائے) تو ہماری یہ کوشش تھی کہ’ رحمانیہ‘ لاہور میں قائم کریں ۔ جس طرح ہندوستان میں ’رحمانیہ‘ سے طلباء اور اساتذہ کا ایک ترجمان نکلا کرتا تھا، جس کا نام ’محدث‘ تھا اسی طرح ہم نے ’رحمانیہ‘ لاہور سے بھی ایک مجلہ ’محدث‘ کے نام سے عرصہ چالیس سال قبل جاری کردیا۔ انسان کا اپنا مزاج ہر کام میں اثر انداز ہوتا ہے، چونکہ میرا مزاج یا تو تدریسی تھا یا تحقیقی، اس اعتبار سے میں نے جب تدریسی کام کیا تو محسوس کیا کہ تدریسی کا م کو اعلیٰ پیمانے پر کرنے کے لیے تحقیقی کام بھی کریں ۔ اگرچہ میں اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھا کرتا ہوں کہ انسان اگر فرش پر سے چھت پر جانا چاہے تو اس کو سیڑھی کے ذریعے جانا پڑتا ہے اور یہی طریقہ درست ہے۔ اگر چھلانگ لگائے گا تو گرنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے، اس لیے سیڑھی کے ذریعے جانا چاہیے۔ اس لحاظ سے میں نے پہلی کوشش یہ کی کہ جب ’رحمانیہ‘ درسگاہ کھولی تو اس وقت بعض مصلحین کے اندر بڑی خواہش پائی جاتی تھی کہ مدرسوں کے اندر درجہ بندی ہونی چاہیے ، چنانچہ میں نے ’رحمانیہ‘ درسگاہ کو ثانوی تک رکھا اور یہ کوشش کی اس میں ثانوی تعلیم کو منظم کیا جائے۔ ثانوی تعلیم کے بعد انسان جب عملاً کام کرتا ہے تو ایک چیزبڑی اہم ہوتی ہے کہ اسے ساتھی کیسے ملتے ہیں ۔ اس لیے کہ انسان کے پاس جس طرح کے ساتھی ہوں گے وہ اسی طرح کا کام کرسکے گا، تو مجھے مولانا صادق خلیل رحمہ اللہ ملے اور اسی طرح میرے ساتھیوں میں حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ، مولانا عبدالسلام کیلانی رحمہ اللہ اور اسی طرح کے دیگر اہل علم اشخاص شامل ہوئے، تو میں نے ’رحمانیہ‘ کو آگے بڑھانے کے لیے ابتدا میں تو صرف اعلیٰ کلاسیں کھولیں ۔ یہ اعلیٰ کلاسیں دو طرح کی تھیں : ایک تو ہمارے دینی نظام تعلیم کی اعلیٰ کلاسیں اور دوسرا چونکہ یہ ضیاء الحق مرحوم کا |